Pages

برے خیالات ۔۔۔۔۔چھوڑ جائیں ساتھ

خیالات وہ چیز ہیں جو کہ ہر ایک کے پاس وافر موجود ہوتے ہیں خواہ آپ کا تعلق کسی بھی رنگ و
 شعبہ سے کیوں نہ ہو۔۔۔خیالات کا دماغ میں آنا در حقیقت کوئی بری بات بالکل نہیں ہے۔۔۔ خیالات دو اقسام کے ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی۔

بات یہ ہے کہ آپکے دماغ کو پتہ نہیں ہوتا کہ اچھے ونسے والے ہیں جنکو سنبھال کر رکھنا ہے اور برے کون سے ہیں جنکو آ کر دماغ سے گزر جانے دیں۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے بھی خیالات کا ساتھ نبھائے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آج جو بہت سی ایجادات ہیں جن سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہ کبھی کسی کاخیال ہی تھیں۔ 
۱۔ دماغ ایک نییوٹرل فرد ہے یہ کبھی بھی بزات خود یہ جانچ نہیں سکتا کہ جو خیال اسکے اندر آرہا ہے یہ اچھا ہے یا برا ہے اسکو سوچنا جاری رکھنا ہے یا نہیں ہے۔ 
انسان خود جانچتا اور جانتا ہے کہ خیال اچھا ہے یا نہیں ہے اسسکو اپنے اندر سے نکالنا ہے یا نہیں ۔ سو اگر ایک خیال آپکو خوشی دے رہا ہے کام کرنے کی ہمت بندھا رہا ہے۔ آپکو زنگی میں کار آمد بنا رہا ہے تو ظاہر ہے خیال اچھا ہے اسکو جاری رکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسکو مستقل دماغ میں رکھنا آپکے حق میں اچھا اور بہترین رہے گا۔ 
اگر ایک خیال تکلیف دہ ہے زندگی تنگ اور مسسائل بڑھانے کا سبب ہے تو یہ خیال برا ہے اور اسکو دماغ میں نہ رکھنا یقینی طور پر ضروری ہے۔ 
۲۔ انسان کے دماغ سے خیالات کبھی بھی نکلتے نہیں ہیں۔ یہ خیالات خود بخود ہی دماغ میں وارد ہوتے رہتے ہیں اور بنتے، مٹتے، الجھتے، سمٹتے رہتے ہیں۔ خیالات کو نہ روکا جا سکتا ہے نہ ٹوکا جا سکتا ہے ۔ انکو صرف بدلا جا سکتاہے۔ خیالات اپنی جگہ موجود رہیں گے اور اپنا کردار نبھاتے رہیں گے۔ خیالات ا آنا ہی انسان میں زندگی کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ 
وہ خیالات جو اچھے محسوسات نہیں دیتے انکو بدل کر انکی جگہ نئے خیالات کو جگی دینے کا وقت ہے جو کہ اپنے ساتھ اچھے محسوسات بھی لا سکیں۔ 
۳۔ جس طرح کے خیالات پر آپ فوکس اور دماغی انرجی لگاتے ہیں اسی طرح کے خیالات آپکےدماغ میں آنے لگتے ہیں ۔ آپ سوچیں شہر کے حالات کس قدر برے ہیں۔۔۔۔۔ایک ایک کر کے شہر کے خراب حالات کے حوالے سے خبریں آپکے دماغ میں قدم رکھنے لگیں گی۔ 
آپ سوچیں ملک میں کرپشن بڑھتی جارہی ہے ایک ایک کر کے کرپشن کے واقعات آپکے دماغ میں سمانے لگیں گے۔ 
آپ سوچیں لوگ کتنے بے وفا ہیں بے وفائیوں کے لاتعداد قصے آپکو سنائی دینے لگیں گے۔ 
ایک خیال جب آتا ہے تو اکیلا نہیں آتا اپنے ساتھ خیالات کا ایک جھرمٹ بھی لے کر آتا ہے۔ 
ہمیشہ یہ سسوچیں کہ آج ملک میں کتنے لوگ صیح سلامت اپنے گھروں کو پہنچے مطلب جزوی خراب حالات کے ساتھ امن بھی تو ہے۔ ملک میں کہیں نہ کہیں ترقی کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ 
جب اچھا سوچ سکیں گے تو اچھے خیالات کا جھرمٹ چلا آئے گا۔ 
۴۔ انسان کا دماغ کبھی بھی لفظ نہی کو پروسیسی نہیں کر سکتا اسکی وجہ یہ ہے کہ دماغ الفاظ پر غور کرتا ہے اور الفاظ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ 

اسی لئے اگر کہا جائے نیلے رنگ کے بارے میں نہ سوچیں تو انسان نیلے رنگ کے بارے میں سب سے پہلے سوچتا ہے۔ اگر کہا جائے جنک فوڈ نہ کھائیں تو سب سے پہلے جنک فوڈ کی تصویر اور اسکے ساتھ جڑا مزہ ذہن میں در آتا ہے۔ 

وجہ صرف یہی ہے کہ جس بارے میں انسان کو راغب کرنا ہو انسٹرکشن بھی وہی دی جانی چاہیئیں۔ اب ہم خود کو برا اور منفی سوچنے سے بچانے کے لئے یہی کہتے ہیں کہ برا نہ سوچو جبکہ انسان کو جو خیالات اچھے ہوں انکو سوچنا شروع کر دینا چاہئے برے خیالات خود بخود دم توڑ دیتے ہیں۔ 
۵۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کی زندگی اتنی افرا تفری سے بھرپور ہے کہ انسان کے لئے یہ سوچنا اب ممکن نہیں رہا کہ وہ سوچ کو ہمیشہ اچھی رکھ سکے۔ اسکا کلیہ یہ ہے کہ تنگی اور ٹینشن دینے والی سوچوں کو سوچنے کے لئے باقاعدہ ایک وقت مقرر کر لیا جائے اور صرف اسی مخصوص وقت پر ٹینشن زدہ سوچوں کو خوب اچھی طرح سے غورو فکر ے ساتھ سوچ لیا جائے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ باقی کام کاج کے اوقات میں یہ سوچیں آپکو تنگ نہیں کریں گی اور آپ کا دماغ دوسری باتوں پر فوکس کرنے کے قابل ہو جائے گا۔ 
رات کو سونے سے پہلے اچھی طرح ٹہل ٹہل کر، صبح سویرے واک کے لئے جاتے ہوئے، تنہائی میں کچھ دیر کے لئے لوگوں سے کٹ کر انسان ایک دفعہ تنگ کرنے والی سوچوں کو خوب اچھی طرح تنگ کر لے تو تسلی ہو جاتی ہے۔ 
۶۔ جو سوچیں بہت ذیادہ تنگ کریں انکو کا غز پر لکھ کر پہلے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ پڑھ لیا جائے تو انسان کو بے حد تسلی ہو جاتی ہے اور انسان کے لئے ان سے جان چھڑانا ممکن ہو جاتا ہے۔ کاغز پر لکھی سوچ دماغ سے باہر کاغز پر جو آجاتی ہے۔ 
۷- ہمارا معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ بہت کم اچھے الفاظ اور روِیے کی اہمیت کو جانتے ہیں سو دوسروں کو تنگ کرنا ذیادہ محبوب مشغلہ ٹھہرتا ہے۔ اسی لئے اکثر برے رویوں کو دیکھتے ہوئے اپنا رویہ بھی رد عمل کے طور پر برا ہونے لگتا ہے۔ 
سب سے پہلے تو اپنا رویہ اچھا رکھنے کے لئے اپنے اندر چلنے والی بات چیت جو کہ اکثر غصیلی اور بہت تنگی دینے والی ہوتی ہے اسکو روکئے اور جب بھی اندر چلتی جنگ شروع ہو تنہائی میں جاکر اسکو لڑ کر کر ختم کریں اور بعد میں جب وقفے وقفے سے اندر سر ابھارے تو اس کو بطور مشغلہ اور غصہ جاری رکھنے کی بجائے سکون سے کچھ اچھا سوچیے۔ 
۸۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دماغ آپکو سوچ کی صورت میں لوٹا تا وہی کچھ ہے جو کہ آپ اسکے اندر ہمیشہ ڈالتے آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے ٹیچرز کے پاس بیٹھنے کا کلچر قریب ختم ہے اسی طرح اب اچھی کتابیں پڑھنے کا لوگوں کے پاس وقت نہِں۔ اچھی سبق آموز ویڈیوز یا لیکچرز کا رواج بھی کم ہو رہا ہے۔ 
اسی وجہ سے دماغ کے پاس بھی پروسیسینگ کے لئے تکلیف دہ اور تنگی والے خیالات ہی ہوتے ہیں۔ دماغ کو خالی چھوڑا جائے اور کام کاج بھی نہ کیا جائے پھر شکایت کی جائے کہ محسوسات اچھے نہیں وجہ ظاہر ہے کیونکہ خیالات اچھے نہیں۔ 
۹۔ ایکسرسائز کا سب کو یقین ہوتا ہے کہ جسمانی فٹنس کے لئے بنائی گئی ہے جبکہ ایکسرسائز جسم سے بھی ذیادہ دماغی فٹنس کے لئے کام کرتی ہے سو اکسرسائز اور واک ضرور کریں تو آُپکو خود بھی اچھا محسوس ہوگا بلکہ دماغ کو آپ سے ذیادہ اچھا لگے گا۔ 
کیونکہ ہمارے دماغ میں نئے خلیات پیدا ہوتے رہتے ہیں انکو استعمال میں لانے اور ایکٹو رکھنے کے لئے ایکسرسائز ضروری ہوتی ہے۔ 
۱۰۔ برا سوچنا آسان ہے اور ہمارے معاشرے میں عادت بھی اسی کی ڈالی جاتی ہے۔ 

اچھا سوچنا مشکل کام ہے اور اسکو پریکٹس کرنا بھی چیلنجنگ ہوتا ہے۔ 

اچھی سوچ کو پریکٹس کے بعد لگاتار کوششوں سے جاری رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ 

سوچیں اور خیالات مل کر محسوسات کو جنم دیتی ہیں اور محسوسات رویے میں جھلکتے ہیں۔ رویہ آُپکے عمل کو اور آپکا عمل آپکی شخصیت کو بناتا ہے اگر سوچ اچھی تو شخصیت بھی یقینی اچھی۔

دنیا کا لمبا ترین انسان








کارٹونز ایک اہم ثقافتی یلغار

Syed Shahzad
آپ میرے بچے کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں، یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا۔ وہ خاتون اس وقت ٹیوٹر سے جھگڑرہی تھیں۔
لیکن اس وقت یہ بچہ کیوں نہیں آسکتا؟ ٹیوٹرنے بے چارگی سے پوچھا۔
میں نے آپ کو کہہ دیاہے کہ یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا اور آپ کو وجہ بھی بتادی ہے۔۔۔۔۔۔
دیکھیں آپ نے جو و جہ بتائی ہے وہ معقول نہیں ہے۔ اب اتنی چھوٹی سی بات پر میں ٹیوشن ٹائم کیسے تبدیل کرسکتاہوں۔۔۔۔۔۔ 
یہ آپ کے نزدیک چھوٹی بات ہوگی مگر بچے کے نزدیک نہیں۔ بہرحال اگر آپ ٹیوشن ٹائم تبدیل کرسکتے ہیں توبتائیں 'ورنہ ہم اپنے بچے کوکہیں اورپڑھالیں گے۔۔۔۔۔۔ 
مجبوراً ٹیوٹر کویہ کہناپڑاکہ ٹھیک ہے ' آپ اپنے بچے کولے جائیں۔اس کے ساتھ ہی وہ خاتون اپنے بچے کے ہمراہ تشریف لے گئیں۔

میں خاموشی سے کھڑا اس صورتحال کا مشاہدہ کررہاتھا۔ اس خاتون کے جانے کے بعد میں نے اس بھائی سے پوچھا کہ معاملہ کیاہے؟ اگران کازیادہ مسئلہ ہے تو آپ ان کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں۔ میری یہ بات سن کر وہ بھائی پہلے توخاموش رہا پھر گویا ہوا: بھائی ان کامسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بچے نے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے ہوتے ہیں۔ میں سمجھاشاید یہ مذاق کررہاہے لیکن جب اس نے سنجیدگی کے ساتھ یہی بات دہرائی تومجھے یقین ہوگیا کہ یہی مسئلہ ہے لیکن دماغ ابھی تک اس بات کوتسلیم کرنے پرآمادہ نہ تھا۔ میں نے مزیدتسلی کے لیے اس بھائی سے پوچھا کہ ایسے کون سے کارٹون ہیں جن کی خاطربچے کے والدین بھی اس کا ٹیوشن ٹائم تبدیل کرنے پرمجبورہیں۔

میرے استفسار پرمجھے پتہ چلا کہ یہ انڈین کارٹونز ہیں اوربچہ اس لیے ٹیوشن نہیں آسکتاکیونکہ اس وقت ان کارٹونز کی نئی قسط دکھائی جاتی ہے۔

یہ تمام باتیں سن کر دماغ سائیں سائیں کررہاتھا۔ میں سوچ رہاتھاکہ ایسی کیا بات ہے ان کارٹونز میں،جن کی خاطر بچے کے والدین اس حدتک جانے پرتیارہیں ۔مزیدکچھ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ ان انڈین کارٹون میں مرکزی کردار ایک بچے کا ہے۔ اس بچے کو دیومالائی طاقتوں کاحامل دکھایاگیاہے اور یہ بچہ پوری طرح ہندورنگ میں رنگاہواہے۔ مزیدخطرناک بات یہ کہ جو بچے یہ کارٹون دیکھتے ہیں کہ وہ اسی کردار کونقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کارٹون کواپنا ہیروخیال کرتے ہیں۔

یہیں پربس نہیں بلکہ پاکستان میں کیبل پرا س وقت چلتے چینلز میں ایسے کارٹونز کی بھرمارہے جن میں مسلمان بچوں کے لیے سامان ہلاکت موجودہے۔ ان چینلز پر چلنے والے کرداروں کی نقالی کرنا مسلم امہ کے ان نونہالوں کاوطیرہ بن چکاہے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ دونوں بچے جنگ پرجاناچاہتے تھے لیکن جنگ کا سپہ سالار ان کی کم عمری کی وجہ سے انہیں اجازت دینے میں متامل تھا لیکن یہ دونوں بچے اس بات پرمصر تھے کہ ہم نے جنگ میں جانا ہے اور اللہ کے دشمنوں کامقابلہ کرناہے۔ بالآخر قرار یہ پایاکہ بڑے بچے کوبھجوادیاجائے اور چھوٹے بچے کو روک لیا جائے لیکن چھوٹا بچہ اس بات پرمصر تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے زیادہ طاقتور ہے۔ سپہ سالار نے دونوں کی کشتی کروانے کافیصلہ کیا تو چھوٹے بھائی نے پہلے ہی بڑے بھائی سے کہہ دیاکہ آپ نے تو جنگ پرچلے ہی جاناہے۔اس لیے مجھ سے کشتی ہارجائیں تاکہ مجھے بھی کفارکے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل سکے۔ بڑا بھائی جان بوجھ کرکشتی ہارجاتاہے۔ اس طرح یہ دونوں بھائی جنگ میں شریک ہوگئے۔چشم فلک نے دیکھاکہ یہ دونوں لڑکے جو ابھی نوجوان کہلانے کے حقدار بھی نہیں تھے، انہوں نے کفرکے سب سے بڑے سردارکو قتل کردیا۔ یہ دونوں بچے تاریخ میں معوذاور معاذw کے نام سے مشہور ہوئے اور اسلام اورکفرکی پہلی فیصلہ کن جنگ میں ان دونوں بچوں نے ابوجہل کوقتل کیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

مندرجہ بالا دونوں واقعات میں بلاکاتضادہے کیونکہ مسلمان بچوں کے لیے آئیڈیل ہندو نہیں بلکہ یہ مجاہد صحابہy ہیں کہ ان کے نقش قدم پرہمارے بچے چلتے اور ان کے دل میں بھی کفر کے خلاف کچھ کرگزرنے کاجذبہ ہوتا۔
مگرافسوس!آج ایک مسلمان گھر کابچہ اپناہیرو ایک ہندوکردار کو سمجھے تو ہم توقع کرسکتے ہیں کہ کل کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ کہاں کھڑا ہوگا؟ معوذاورمعاذ wکے نقش قدم پرچلتے ہوئے مجاہدین کی صف میں یا غیرمسلم کرداروں کی نقالی کرتے ہوئے جنگ سے دور۔۔۔۔۔۔؟؟جذبہ جہاد سے لبریز یادنیاوی آسائشوں میں گم۔۔۔۔۔۔؟کفرکے خلاف دل میں نفرت لیے ہوئے یا۔۔۔۔۔۔؟

یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ہمارے گھروں میں عموماً بچوں کوکارٹون کے ذریعے بہلایاجاتاہے کہ اگربچے تنگ کررہے ہوں توان کوکارٹون لگاکردے دئےے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ سکرین پرناچنے والے ان کرداروں کاان معصوم ذہنوں پر کیا اثر ہوگا۔یہ معصوم بچے جن کے ذہن سلیٹ کی مانند ہیں۔ان کے ذہنوں میں اسلامی غیرت وحمیت اورجذبہ جہاد کی جگہ کیاتصورات اور خیالات جنم لیں گے؟یہ بچہ اسلام کے دفاع کے لیے کیا خدمات سرانجام دے سکے گا؟

ایک بڑا سوال جوعموماً کیاجاتاہے کہ اگربچوں کوکارٹون دیکھنے کونہ دیں توکیاکریں ۔بچے تنگ بہت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی توسوچئے آج یہ صرف آپ کوتنگ کریں گے لیکن اگریہ انہی غیر مسلم کرداروں کو دیکھتے رہیں توکل پوری امت مسلمہ کے لیے تنگی کا باعث بنیں گے۔ جب مسلم بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوں گی تو یہ اس وقت دنیاکی رنگینی میں گم ہوگا اور جب اسلام کی عزت پہ ڈاکا ڈالا جائے گا تواس وقت یہ اپنے کسی ''ہیرو'' کی مثل بننے میں کوشاں ہوگا لیکن کیاایک مسلم نوجوان اوربچے کامستقبل یہی ہوناچاہیے؟ 

جہاں تک یہ سوال ہے کہ اگربچے کارٹون نہ دیکھیں تو پھر کیاکریں تواس معاملے میں بھی بہت ساری تجاویز موجود ہیں بشرطیکہ آپ مخلص ہوں ۔سب سے کارآمدطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے قریب جتنے بھی بچے موجودہیں ان کے درمیان بزم ادب کروائیں۔بچوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں سنیں۔ کوئی تلاوت' نعت یا ترانہ۔اگرکوئی بچہ کوئی اچھی بات کرسکتاہے تواس کوبھی موقع دیں۔ پھران بچوں میں سے نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات دیں۔ انعامات خواہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ بچوں کے لیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ہفتہ میں ایک دن مختص کریں کہ اس دن بزم ادب ہوگا۔تمام بچے تیاری کریں۔ 

پھراسی طرح ہربزم ادب میں آپ خود کسی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاواقعہ سنائیں یاکسی اوردلچسپ اسلامی واقع کا احوال بیان کریں۔ کوشش کریں کہ ہمارے جنگی ہیروزمثلاً صلاح الدین ایوبی،محمودغزنوی،نورالدین زنگیaوغیرہ کے واقعات ذرا دلچسپ اندازمیں کہانی کی طرح سنائیں۔ پھرسلسلہ یہیں تک محدود نہ رکھیں بلکہ بچوں میں کوئز پروگرام کروائیں اور اسلام سے متعلق سوالات پوچھیں۔ اسی طرح بچوں کومقابلہ بازی میں مختلف دعائیں یادکروائیں۔ ان کے درمیان مختلف گیمز کروائیں۔ یہ یقینی طورپر ایسی سرگرمیاں ہیں کہ آپ کے بچے کارٹونز کوبھول جائیں گے اور اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔
اسی دوران آپ بچوں کو نماز کی ترغیب دلائیں۔پوری نمازیں پڑھنے والے یاتکبیراولیٰ سے ساری نمازیں پڑھنے والے کو انعام سے نوازیں ۔الغرض کوشش کرے انسان توکیانہیں ہوسکتا۔

گزارش یہی ہے کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے مستقبل کوبچائیں اور انہیں اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور ان کے آئیڈیل معوذ اور معاذ ہونے چاہئیں نہ کہ کوئی بھی ہندو کردار۔۔۔۔۔۔!!

کارٹونز ایک اہم ثقافتی یلغار

(Hanzla Ammad, Lahore)

آپ میرے بچے کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں، یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا۔ وہ خاتون اس وقت ٹیوٹر سے جھگڑرہی تھیں۔
لیکن اس وقت یہ بچہ کیوں نہیں آسکتا؟ ٹیوٹرنے بے چارگی سے پوچھا۔
میں نے آپ کو کہہ دیاہے کہ یہ اس وقت ٹیوشن نہیں آسکتا اور آپ کو وجہ بھی بتادی ہے۔۔۔۔۔۔
دیکھیں آپ نے جو و جہ بتائی ہے وہ معقول نہیں ہے۔ اب اتنی چھوٹی سی بات پر میں ٹیوشن ٹائم کیسے تبدیل کرسکتاہوں۔۔۔۔۔۔ 
یہ آپ کے نزدیک چھوٹی بات ہوگی مگر بچے کے نزدیک نہیں۔ بہرحال اگر آپ ٹیوشن ٹائم تبدیل کرسکتے ہیں توبتائیں 'ورنہ ہم اپنے بچے کوکہیں اورپڑھالیں گے۔۔۔۔۔۔ 
مجبوراً ٹیوٹر کویہ کہناپڑاکہ ٹھیک ہے ' آپ اپنے بچے کولے جائیں۔اس کے ساتھ ہی وہ خاتون اپنے بچے کے ہمراہ تشریف لے گئیں۔

میں خاموشی سے کھڑا اس صورتحال کا مشاہدہ کررہاتھا۔ اس خاتون کے جانے کے بعد میں نے اس بھائی سے پوچھا کہ معاملہ کیاہے؟ اگران کازیادہ مسئلہ ہے تو آپ ان کاٹیوشن ٹائم تبدیل کردیں۔ میری یہ بات سن کر وہ بھائی پہلے توخاموش رہا پھر گویا ہوا: بھائی ان کامسئلہ یہ ہے کہ اس وقت بچے نے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے ہوتے ہیں۔ میں سمجھاشاید یہ مذاق کررہاہے لیکن جب اس نے سنجیدگی کے ساتھ یہی بات دہرائی تومجھے یقین ہوگیا کہ یہی مسئلہ ہے لیکن دماغ ابھی تک اس بات کوتسلیم کرنے پرآمادہ نہ تھا۔ میں نے مزیدتسلی کے لیے اس بھائی سے پوچھا کہ ایسے کون سے کارٹون ہیں جن کی خاطربچے کے والدین بھی اس کا ٹیوشن ٹائم تبدیل کرنے پرمجبورہیں۔

میرے استفسار پرمجھے پتہ چلا کہ یہ انڈین کارٹونز ہیں اوربچہ اس لیے ٹیوشن نہیں آسکتاکیونکہ اس وقت ان کارٹونز کی نئی قسط دکھائی جاتی ہے۔

یہ تمام باتیں سن کر دماغ سائیں سائیں کررہاتھا۔ میں سوچ رہاتھاکہ ایسی کیا بات ہے ان کارٹونز میں،جن کی خاطر بچے کے والدین اس حدتک جانے پرتیارہیں ۔مزیدکچھ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ ان انڈین کارٹون میں مرکزی کردار ایک بچے کا ہے۔ اس بچے کو دیومالائی طاقتوں کاحامل دکھایاگیاہے اور یہ بچہ پوری طرح ہندورنگ میں رنگاہواہے۔ مزیدخطرناک بات یہ کہ جو بچے یہ کارٹون دیکھتے ہیں کہ وہ اسی کردار کونقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوراس کارٹون کواپنا ہیروخیال کرتے ہیں۔

یہیں پربس نہیں بلکہ پاکستان میں کیبل پرا س وقت چلتے چینلز میں ایسے کارٹونز کی بھرمارہے جن میں مسلمان بچوں کے لیے سامان ہلاکت موجودہے۔ ان چینلز پر چلنے والے کرداروں کی نقالی کرنا مسلم امہ کے ان نونہالوں کاوطیرہ بن چکاہے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
وہ دونوں بچے جنگ پرجاناچاہتے تھے لیکن جنگ کا سپہ سالار ان کی کم عمری کی وجہ سے انہیں اجازت دینے میں متامل تھا لیکن یہ دونوں بچے اس بات پرمصر تھے کہ ہم نے جنگ میں جانا ہے اور اللہ کے دشمنوں کامقابلہ کرناہے۔ بالآخر قرار یہ پایاکہ بڑے بچے کوبھجوادیاجائے اور چھوٹے بچے کو روک لیا جائے لیکن چھوٹا بچہ اس بات پرمصر تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے زیادہ طاقتور ہے۔ سپہ سالار نے دونوں کی کشتی کروانے کافیصلہ کیا تو چھوٹے بھائی نے پہلے ہی بڑے بھائی سے کہہ دیاکہ آپ نے تو جنگ پرچلے ہی جاناہے۔اس لیے مجھ سے کشتی ہارجائیں تاکہ مجھے بھی کفارکے خلاف اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع مل سکے۔ بڑا بھائی جان بوجھ کرکشتی ہارجاتاہے۔ اس طرح یہ دونوں بھائی جنگ میں شریک ہوگئے۔چشم فلک نے دیکھاکہ یہ دونوں لڑکے جو ابھی نوجوان کہلانے کے حقدار بھی نہیں تھے، انہوں نے کفرکے سب سے بڑے سردارکو قتل کردیا۔ یہ دونوں بچے تاریخ میں معوذاور معاذw کے نام سے مشہور ہوئے اور اسلام اورکفرکی پہلی فیصلہ کن جنگ میں ان دونوں بچوں نے ابوجہل کوقتل کیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

مندرجہ بالا دونوں واقعات میں بلاکاتضادہے کیونکہ مسلمان بچوں کے لیے آئیڈیل ہندو نہیں بلکہ یہ مجاہد صحابہy ہیں کہ ان کے نقش قدم پرہمارے بچے چلتے اور ان کے دل میں بھی کفر کے خلاف کچھ کرگزرنے کاجذبہ ہوتا۔
مگرافسوس!آج ایک مسلمان گھر کابچہ اپناہیرو ایک ہندوکردار کو سمجھے تو ہم توقع کرسکتے ہیں کہ کل کفر اور اسلام کی جنگ میں وہ کہاں کھڑا ہوگا؟ معوذاورمعاذ wکے نقش قدم پرچلتے ہوئے مجاہدین کی صف میں یا غیرمسلم کرداروں کی نقالی کرتے ہوئے جنگ سے دور۔۔۔۔۔۔؟؟جذبہ جہاد سے لبریز یادنیاوی آسائشوں میں گم۔۔۔۔۔۔؟کفرکے خلاف دل میں نفرت لیے ہوئے یا۔۔۔۔۔۔؟

یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ہمارے گھروں میں عموماً بچوں کوکارٹون کے ذریعے بہلایاجاتاہے کہ اگربچے تنگ کررہے ہوں توان کوکارٹون لگاکردے دئےے جاتے ہیں۔ مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ سکرین پرناچنے والے ان کرداروں کاان معصوم ذہنوں پر کیا اثر ہوگا۔یہ معصوم بچے جن کے ذہن سلیٹ کی مانند ہیں۔ان کے ذہنوں میں اسلامی غیرت وحمیت اورجذبہ جہاد کی جگہ کیاتصورات اور خیالات جنم لیں گے؟یہ بچہ اسلام کے دفاع کے لیے کیا خدمات سرانجام دے سکے گا؟

ایک بڑا سوال جوعموماً کیاجاتاہے کہ اگربچوں کوکارٹون دیکھنے کونہ دیں توکیاکریں ۔بچے تنگ بہت کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی توسوچئے آج یہ صرف آپ کوتنگ کریں گے لیکن اگریہ انہی غیر مسلم کرداروں کو دیکھتے رہیں توکل پوری امت مسلمہ کے لیے تنگی کا باعث بنیں گے۔ جب مسلم بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوں گی تو یہ اس وقت دنیاکی رنگینی میں گم ہوگا اور جب اسلام کی عزت پہ ڈاکا ڈالا جائے گا تواس وقت یہ اپنے کسی ''ہیرو'' کی مثل بننے میں کوشاں ہوگا لیکن کیاایک مسلم نوجوان اوربچے کامستقبل یہی ہوناچاہیے؟ 

جہاں تک یہ سوال ہے کہ اگربچے کارٹون نہ دیکھیں تو پھر کیاکریں تواس معاملے میں بھی بہت ساری تجاویز موجود ہیں بشرطیکہ آپ مخلص ہوں ۔سب سے کارآمدطریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے قریب جتنے بھی بچے موجودہیں ان کے درمیان بزم ادب کروائیں۔بچوں سے چھوٹی چھوٹی چیزیں سنیں۔ کوئی تلاوت' نعت یا ترانہ۔اگرکوئی بچہ کوئی اچھی بات کرسکتاہے تواس کوبھی موقع دیں۔ پھران بچوں میں سے نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو انعامات دیں۔ انعامات خواہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ بچوں کے لیے بہت بڑے ہوتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ہفتہ میں ایک دن مختص کریں کہ اس دن بزم ادب ہوگا۔تمام بچے تیاری کریں۔ 

پھراسی طرح ہربزم ادب میں آپ خود کسی صحابی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاواقعہ سنائیں یاکسی اوردلچسپ اسلامی واقع کا احوال بیان کریں۔ کوشش کریں کہ ہمارے جنگی ہیروزمثلاً صلاح الدین ایوبی،محمودغزنوی،نورالدین زنگیaوغیرہ کے واقعات ذرا دلچسپ اندازمیں کہانی کی طرح سنائیں۔ پھرسلسلہ یہیں تک محدود نہ رکھیں بلکہ بچوں میں کوئز پروگرام کروائیں اور اسلام سے متعلق سوالات پوچھیں۔ اسی طرح بچوں کومقابلہ بازی میں مختلف دعائیں یادکروائیں۔ ان کے درمیان مختلف گیمز کروائیں۔ یہ یقینی طورپر ایسی سرگرمیاں ہیں کہ آپ کے بچے کارٹونز کوبھول جائیں گے اور اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔
اسی دوران آپ بچوں کو نماز کی ترغیب دلائیں۔پوری نمازیں پڑھنے والے یاتکبیراولیٰ سے ساری نمازیں پڑھنے والے کو انعام سے نوازیں ۔الغرض کوشش کرے انسان توکیانہیں ہوسکتا۔

گزارش یہی ہے کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے مستقبل کوبچائیں اور انہیں اسلام کے سانچے میں ڈھالیں اور ان کے آئیڈیل معوذ اور معاذ ہونے چاہئیں نہ کہ کوئی بھی ہندو کردار۔۔۔۔۔۔!!

List