Pages

نفسانی عشق


".. نفسانی عشق .."

اصلاحِ نفس کے لئے ایک شخص کسی بزرگ کی خدمت میں پیش ہُوا اور اُن کے مدرسے میں قیام پزیر ہو کر بزرگ کے تعلیم کردہ ورد و وظائف پابندی سے پڑھنے لگا۔ بزرگ کے گھر سے ایک خادمہ مدرسے میں زیرِ تعلیم لوگوں کے لئے کھانا لایا کرتی تھی۔ خادمہ کو دیکھ کر اصلاحِ نفس کا خواہشمند شخص نفس کے جال میں پھنسنا شروع ہو گیا۔ خادمہ جب بھی کھانا لاتی تو وہ اُسے بُری نظر سے دیکھتا۔ خادمہ اللّٰہ والوں کی نوکر تھی۔ اُس نے بزرگ کو صاف صاف بتا دیا کہ "آپ کا فلاں مُرید میرے حُسن سے نفسانی عشق میں مبتلا ہو گیا ہے, اب اُسے ورد و وظائف سے کیا حاصل ہو گا۔؟ پہلے اُس کا یہ مسئلہ حل کیجئے۔" بزرگ یہ سُن کر خاموش ہو گئے اور اللّٰہ کی بارگاہ میں دُعا گو ہوئے کہ مجھے اِس مسئلے کا حل عطا فرما۔ اگلے روز انہوں نے خادمہ کو اسہال کی دوا دی اور ساتھ حُکم دیا کہ "اِس دوا کے کھانے سے تجھے جتنے دست یا قے وغیرہ آئے وہ سب ایک گھڑے کے اندر جمع کرتی رہنا۔" خادمہ نے بزرگ کے حکم کے مطابق دوا کا استمعال کیا اور تمام غلاظت ایک گھڑے میں جمع کرتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ چند ہی دن میں شدید کمزور اور لاغر ہو گئی۔ چہرہ پیلا ہو گیا, آنکھیں اندر کو دھنس گئیں۔ رخسار اندر کو بیٹھ گئے۔ غرض کہ اُس کا سارا حُسن جاتا رہا اور ہیضے کے مریض کی طرح خادمہ کا چہرہ بھی مکروہ سا ہو گیا۔ 
بزرگ نے خادمہ سے کہا کہ "آج تُو اُس کا کھانا لے کر جا۔" جب خادمہ کھانا لے کر پہنچی تو بزرگ خود ایک آڑ میں چھُپ کر کھڑے ہو گئے۔ جب اُس مُرید نے خادمہ کا چہرہ دیکھا تو فوراً اُس سے نظر ہٹا لی اور بے رُخی سے کہا کہ "کھانا وہاں رکھ دو۔" یہ سُن کر بُزرگ فوراً آڑ سے باہر نکل آئے اور مُرید سے کہا کہ "اے بےوقوف آج تُو نے اِس سے کیوں رُخ پھیر لیا, اِس کنیز کے جسم سے ایسی کیا چیز گُم ہو گئی جس کی وجہ سے اِس کے لئے تیرے دل میں جو عشق تھا وہ رُخصت ہو گیا۔؟" پھر اُن بزرگ کے حُکم سے وہ غلاظت بھرا گھڑا لا کر مُرید کے سامنے رکھ دیا گیا اور انہوں نے مُرید کو مخاطب کر کے کہا کہ "اِس کنیز کے جسم سے سوائے اتنی مقدار غلاظت کے اور کوئی شئے کم نہیں ہوئی۔ معلوم ہُوا کہ تیرا عشق یہی غلاظت تھی جو اِس کنیز کے جسم سے نکل گئی تو تیرا عشق بھی رُخصت ہو گیا۔" 

درسِ حیات: ظاہری رنگ روپ کو دیکھ کر نفسانی عشق پالنا ایک غلاظت کے سوا اور کچھ بھی نہیں جو آدمی کے دل و نگاہ کو بدبودار بنا دیتا ہے۔ اور جو شخص کسی سے محض اُس کے ظاہری حُسن کی بنیاد پر محبت کا دعویٰ کرتا ہے اُس کا عشق حُسن کے ڈھلنے کے ساتھ ہی رُخصت بھی ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص جس گھنگرو والی زُلفِ مُشکبار پر فریفتہ ہوتا ہے مطلب پورا جانے پر وہی زُلف اُسے گدھے کی دُم کی طرح بُری معلوم ہونا شروع جاتی ہے۔ پس احمق لوگ ظاہری رنگ روپ کا فانی جلوہ دیکھ کر کسی پر بھی عاشق ہو جاتے ہیں اور روپ کی فنا کے ساتھ ہی اُن کا عشق بھی فنا ہو جاتا ہے جبکہ اہلِ عقل باطن کی خوبصورتی دیکھتے ہیں جو کہ دائمی ہے اور اُس خوبصورتی سے محبت کرنے کے باعث اُن کا عشق بھی دائمی ہو جاتا ہے۔

.. حکایت نمبر 61, کتاب: "حکایاتِ رومی" از حضرت مولانا عارف محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ


Air Marshal Nur Khan
ائیرمارشل نور خان ایک طلسماتی شخصیت تھے‘ وہ 1923ء میں پیدا ہوئے‘ 1941ء میں انڈین ائیرفورس جوائن کی‘ 1947ء میں پاکستان ائیر فورس کا حصہ بنے اور پھر ہیرو کی زندگی گزاری‘ وہ ”مین آف سٹیل“ کہلاتے تھے‘ وہ 1965ء کی جنگ میں ائیر چیف تھے لیکن خود جہاز اڑا کر حساس ترین مقامات پر چلے جاتے تھے‘ ان کی خدمات کا دائرہ صرف ائیرفورس تک محدود نہیں تھا‘ وہ 1959ء سے 1965ء تک پی آئی اے کے ایم ڈی رہے اور اسے دنیا کی پانچ بہترین ائیر لائنز میں شامل کرا دیا۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے اور پاکستان کو ہاکی کا ورلڈ چیمپیئن بنوا دیا‘ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنے اور ہم کرکٹ کی دنیا میں ”مین پلیئر“ بن گئے‘ نور خان نے

اپنی زندگی میں جس ادارے میں قدم رکھا وہ ادارہ انٹرنیشنل بن گیا اور دوسرے ملکوں نے وہ ماڈل بعد ازاں نقل کیا تاہم یہ تمام کامیابیاں ائیر مارشل نور خان کی پروفیشنل زندگی تھی‘ آپ کو زندگی میں ایسے بلکہ ان سے بھی بہتر لوگ مل جائیں گے لیکن ان کا اصل کمال ان کی ذاتی زندگی تھی‘ وہ 1969ء میں ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے 42 سال بعد 2011ء میں 88 سال کی عمر میں فوت ہوئے مگر وہ مرنے تک سپر فٹ تھے‘ وہ اسلام آباد میں روز مارگلہ ہلز کی ٹریل تھری پر ٹریکنگ کرتے تھے اور 40 منٹ میں بغیر رکے آخری پوائنٹ تک پہنچ جاتے تھے‘ میں اکثر انہیں ٹریل تھری پر دیکھتا تھا‘ وہ دائیں بائیں دیکھے بغیر بیس بیس سال کے نوجوانوں کو کراس کر جاتے تھے‘ ہم لوگ ان کے مقابلے میں جوان بھی تھے اور ”سپر فٹ‘ بھی لیکن ہم جوان لوگ انہیں کبھی کراس نہ کر سکے‘ ہم جب آخری پوائنٹ پر پہنچتے تھے تو وہ نیچے پہنچ چکے ہوتے تھے‘ وہ88 سال کی عمر میں بھی چالیس سال کے لگتے تھے‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کے گھٹنوں میں درد ہوتا تھا‘ ہم مسلسل چار دن ٹریک نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ آندھی ہو یا طوفان وہ وقت مقررہ پر مارگلہ کی پارکنگ میں ہوتے تھے اور ہاتھ پیچھے باندھ کر اوپر چڑھنا شروع کر دیتے تھے۔

میں نے ایک دن ان سے پوچھا ”سر آپ کے گھٹنوں میں درد نہیں ہوتا‘ وہ ہنس کر بولے ”مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں پہاڑ پرچڑھنے اور اترنے سے گھٹنے جواب دے جاتے ہیں لیکن مجھے آج تک کسی جوڑ میں درد نہیں ہوا“ میں نے عرض کیا ”یہ شاید آپ کے طاقتور جینز کا کمال ہے“ وہ ہنس کر بولے ”نہیں ہرگز نہیں‘ میرے خاندان کے زیادہ تر لوگ جلدفوت ہو گئے تھے“ میں نے ان سے وجہ پوچھی‘ ائیر مارشل صاحب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولے ”ینگ مین وِل ٹیل یو نیکسٹ ٹائم“اور تیز تیز قدموں سے پہاڑ چڑھنے لگے۔

ھے محسوس ہوا وہ ایکسرسائز کے ساتھ ساتھ وقت کے بھی ٹھیک ٹھاک پابند ہیں‘ میں اس کے بعد ان سے کئی مرتبہ ملا‘ سلام کیا ”نیکسٹ ٹائم“ کا حوالہ بھی دیا لیکن وہ مسکرا کر آگے نکل گئے لیکن پھر ایک دن معجزہ ہو گیا‘ وہ میرے قریب سے گزرے اور بولے ”آپ اگر آج فارغ ہیں تو بات ہو سکتی ہے“ میں نے عرض کیا ”سر وقت ہی وقت‘ آپ فرمائیے“ وہ بولے”میں 40 منٹ میں نیچے آ جاؤں گا‘ ہم آدھ گھنٹہ گپ لگا لیں گے“ میں نے سلام کیا اور اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف چل پڑا کیونکہ میں جانتا تھا میں 40 منٹ میں واپس نیچے نہیں پہنچ سکوں گا۔

میں بمشکل نیچے پارکنگ میں پہنچا‘ آپ یقین کیجئے وہ 88 سال کی عمر میں 39 منٹ میں اوپر آخری پوائنٹ کو ہاتھ لگا کر نیچے آ گئے تھے۔ٹریل تھری کی پارکنگ کے سامنے کسی صاحب ذوق نے گھر میں کلب ٹائپ ریستوران بنا رکھا تھا‘ ہم وہاں چلے گئے‘میرے پاس وقت کم تھا اور سوال زیادہ چنانچہ میں نے ان سے فٹنس کا راز پوچھنا شروع کر دیا‘ وہ بولے ”صحت اٹھارہ اصولوں کا مکمل پیکج ہے‘ ایکسرسائز اس پیکج کا صرف ایک اصول ہے‘ ہم جب تک باقی 17 اصولوں کو ایکسرسائز جتنی اہمیت نہیں دیتے ہم اس وقت تک سپر فٹ نہیں ہو سکتے“۔

میرے لئے یہ نئی بات تھی‘ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ”وقت کی پابندی صحت کا پہلا اصول ہے‘ آپ جب تک وقت کو کنٹرول نہیں کرتے‘ آپ اس وقت تک صحت مند نہیں ہو سکتے‘ میں نے اپنی زندگی میں وقت کی پابندی نہ کرنے والے کسی شخص کو 60 سال سے اوپر جاتے نہیں دیکھا‘ میں نے 18 سال کی عمر میں گوروں کے ساتھ کام شروع کیا تھا‘ میں نے وقت کی پابندی ان سے سیکھی‘ ٹائم اور ٹائمنگ فلائنگ کے بنیادی اصول ہیں‘ فلائنگ نے میری یہ عادت پختہ کر دی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے میں وقت کی پابندی کرتا ہوں۔

مجھے صدر ایوب خان نے بلایا تھا‘ وہ چار منٹ لیٹ تھے‘ میں ماتحت ہونے کے باوجود ملاقات کے بغیر واپس آ گیا تھا‘ وہ دوسرے دن خود میرے دفتر آئے۔دوسرا‘ میں سگریٹ اور شراب نہیں پیتا‘ چائے اور کافی بھی زیادہ نہیں لیتا‘ میری نوکری کے زمانے میں سگریٹ اور شراب فوجی کلچر کا حصہ تھی‘ ہمیں کوٹہ ملتا تھا‘ میں اپنا کوٹہ اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیتا تھا‘ میرے کوٹے کو انجوائے کرنے والے تمام لوگ چالیس سال پہلے فوت ہو گئے جبکہ میں آج بھی روزانہ پہاڑ پر چڑھتا ہوں۔

تیسرا‘ میں زندہ رہنے کیلئے کھانا کھاتا ہوں‘ کھانا کھانے کیلئے زندہ نہیں رہتا‘ میں نے کیریئر کے شروع میں انگریز افسروں کو فاقے کرتے دیکھا تھا‘ ہمارے بیس میں ایک بودھ بھکشو آیا کرتا تھا‘ وہ افسروں کو فاقہ کراتا تھا‘ افسر فاقے کے بعد چاق و چوبند ہو جاتے تھے‘ میں نے ان کی دیکھا دیکھی روزے رکھنا شروع کر دیئے‘ میری جسمانی اور ذہنی صحت روزوں کی وجہ سے زیادہ اچھی ہو گئی‘ میں نے اس تجربے سے سیکھا روزہ بھی اچھی صحت کا ایک اصول ہے۔

میں یہ اصول بھی کیری کرتا ہوں‘ رمضان کے سارے روزے بھی رکھتا ہوں اور عام دنوں میں بھی ہر مہینے دو چار روزے رکھ لیتا ہوں‘ میرا جسمانی نظام ٹھیک رہتا ہے“ وہ رکے اور بولے ”میں نمک‘ چینی‘ مسالے اور گھی کم استعمال کرتا ہوں‘ تلی ہوئی اشیاء نہیں کھاتا‘ گوشت کی جگہ مچھلی کھاتا ہوں اور وہ بھی گرلڈ‘ ہمیں اچھی صحت کیلئے ہفتے میں کم از کم تین مرتبہ مچھلی کھانی چاہیے‘ یہ ہمیں فٹ رکھتی ہے“ وہ رکے اور بولے ”پریشانی‘ دکھ اور غم انسان کو جلد بوڑھا کر دیتے ہیں۔

میں پریشان ہونے کی بجائے ہمیشہ اپنی پریشانی کا حل تلاش کرتا ہوں‘ حل نکل آئے تو ٹھیک ورنہ اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتا ہوں“ وہ رکے اور مسکرا کر بولے ”میں روز اپنا وزن کرتا ہوں‘ میں نے باتھ روم میں وزن کی مشین رکھی ہوئی ہے‘ میں صبح اٹھ کر وزن دیکھتا ہوں جس دن میرا وزن زیادہ ہو میں اگلے دن روزہ بھی رکھ لیتا ہوں اور ٹریکنگ کا دورانیہ بھی بڑھا دیتا ہوں‘ وزن کا صحت سے گہرا تعلق ہے‘ آپ کا وزن جتنا بڑھتا جاتا ہے‘ آپ اتنا اپنی قبر کے قریب ہوتے جاتے ہیں چنانچہ آپ کسی قیمت پر اپنا وزن نہ بڑھنے دیں‘ آپ فٹ رہیں گے“

وہ رکے اور بولے ”میں دوستوں کے معاملے میں بھی بہت سخت ہوں‘ میں صرف ہم مزاج لوگوں کو دوست بناتا ہوں‘ چڑچڑے‘ بدتہذیب‘ نمائشی اور نالائق لوگوں سے پرہیز کرتا ہوں لیکن جو لوگ میرے دوست بن جاتے ہیں میں روز ان سے ضرور ملتا ہوں‘ انسان کو اچھے اور ہم مزاج لوگوں کی کمپنی ہمیشہ انرجی دیتی ہے‘ میں یہ انرجی بھی لیتا ہوں‘ میں نے دوستوں سے محروم تنہائی پسند لوگوں کو بھی جلد مرتے دیکھا“ وہ رکے اور بولے ”آپ اگر اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے رہیں تو بھی آپ صحت مند رہتے ہیں۔

امید انرجی ہوتی ہے اور یہ شکر سے جنم لیتی ہے‘ آپ اللہ کا شکر کرتے جائیں‘ آپ کی امید بڑھتی جائے گی‘ میں نے مایوس اور ناشکرے لوگوں کو ہمیشہ بیمار بھی دیکھا اور جلدی قبرستان پہنچتے بھی چنانچہ کچھ بھی ہو جائے امید اور شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دو تم لمبی اور صحت مند زندگی پاؤ گے“۔ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور فرمایا ”فیملی بھی آپ کو انرجی دیتی ہے‘ آپ اگر دن کا ایک حصہ بچوں اور ان کے بچوں میں گزارتے ہیں تو بھی آپ جوان اور صحت مند رہتے ہیں‘ میں پوری زندگی فیملی مین رہا ہوں‘ میں نے فیملی کو دور جانے دیا اور نہ خود ان سے دور گیا چنانچہ میں آج بھی چاق وچوبند ہوں‘ میں نے ان لوگوں کو بھی بیمار اور لاچار پایا جو صاحب اولاد نہیں تھے یا جو بچوں سے دور رہتے تھے جبکہ بچوں والوں کو خوش بھی دیکھا اور فٹ بھی“۔

میں ان کی گفتگو غور سے سن رہا تھا‘ وہ بولے”صحت کے چند اور اصول بھی ہیں مثلاً آپ اگر دوسروں کے کام آتے ہیں‘ چیریٹی ورک کرتے ہیں تو بھی آپ صحت مند ہوں گے‘ مثلاً آپ کم سے کم ریڈیو سنیں اور کم سے کم ٹی وی دیکھیں آپ صحت مند رہیں گے‘ مثلاً آپ جلدی سوئیں اور جلدی جاگیں‘ کم از کم نو دس گھنٹے نیند لیں‘ آپ کی جسمانی بیٹریاں چارج رہیں گی‘ مثلاً آپ فطرت کے قریب رہیں‘ میری طرح روزانہ پہاڑ پر آئیں‘ جنگلوں میں نکل جائیں‘ جھیلوں اور دریاؤں کے ساتھ واک کریں اور برف میں چلیں۔

مثلاً آپ روز چند منٹوں کیلئے خاموش بیٹھ جائیں‘ کسی سے بات کریں اور نہ کسی کی سنیں‘ یہ مراقبہ بھی آپ کو صحت مند بنا دے گا‘ مثلاً خوراک میں سبزیاں اور فروٹ بڑھا دیں‘ ڈرائی فروٹ بھی کھائیں‘ مثلاً آپ کی زندگی کا کوئی نہ کوئی گول‘ کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے‘ بے مقصد لوگ زمین پر بوجھ ہوتے ہیں‘ زمین انہیں جلد اتار دیتی ہے اور مثلاً آخر میں روزانہ ایکسرسائز بلاناغہ‘ ریس لگائیں‘ نہ لگا سکیں تو جاگنگ کریں‘ یہ بھی نہ کر سکیں تو واک ضرور کریں‘ آپ لمبی زندگی گزاریں گے“۔

وہ رکے‘ گرین ٹی کا آخری گھونٹ بھرا اور بولے ”آخری ٹپ‘ تجربہ کار لوگوں سے تجربے کی باتیں سیکھتے رہا کریں‘ علم بھی انسان کو رواں اور صحت مند رکھتا ہے“ وہ اٹھے‘ ہاتھ ملایا اور رخصت ہو گئے‘ وہ چند دن بعد بیمار ہوئے‘ ہسپتال داخل ہوئے اور دو دن بعد انتقال فرما گئے‘ وہ ہسپتال جانے سے پہلے بھی ٹریل تھری پر آئے تھے اور اپنی آخری واک مکمل کی تھی۔

کیا تمہیں یاد ہے، پرانے دور کی یادیں

کیا تمہیں یاد ہیں؟

کچے گھر اور پکے رِشتے ہوتے تھے

گاؤں والے کِتنے مِیٹھے ہوتے تھے

سُنا ہے ہر دروازے میں اَب تالا ہے

پہلے تو ہر صحن سے رستے ہوتے تھے

کون اَذانیں دیتا ہے اب مسجد میں !!

پہلے تو کُچھ بُوڑھے بابے ہوتے تھے

سُنا ہے اب تو کیبل شیبل آگئی ہے

پہلے تو پی ٹی وی والے ہوتے تھے

سُنا ہے اب تو کار میں دُلہن جاتی ہے

پہلے تو ڈولی اور سِکے ہوتے تھے

سُنا ہے اب تو آدھا گاؤں باہر ہے

پہلے تو کھیتوں میں پیسے ہوتے تھے


سُنا ہے اب تو خُشک پڑی ہے ندیا بھی

یاد ہے؟؟ بادل کِتنے گہرے ہوتے تھے

سُنا ہے بچے گھر میں سہمے رہتے ہیں

پہلے تو گلیوں میں میلے ہوتے تھے

سُنا ہے سب کے پاس ہیں ٹچ موبائل اب

پہلے تو ہر جیب میں کنچے ہوتے تھے

یاد ہے؟؟ کرکٹ میں جب جھگڑے ہوتے تھے

یاد ہے؟؟ ہم سب بالکل بچے ہوتے تھے

کیا اب بھی کوئی کھیلتا ہے اُس برگد پر؟؟

جس سے ہم دِن بھر ہی چپکے ہوتے تھے

سُنا ہے اب تو بچے بُوڑھوں جیسے ہیں

پہلے بُوڑھے بچوں جیسے ہوتے تھے

اچھی بات۔

انسان اس وقت نقصان اٹھاتا ہے جب اپنے مخلص لوگوں سے منافقت شروع کرتا ہے۔

چالیس نصیحتیں

,,,اللہ پاک! ہمیں عمل کی توفیق دے.آمین

1. ایک دوسرے کو سلام کریں.
(مسلم: 54)
2. ان سے ملاقات کرنے جائیں.
(مسلم: 2567)
3. ان کے پاس بیٹھنے اٹھنے کا معمول بنائیں.
(لقمان: 15)
4. ان سے بات چیت کریں.
(مسلم: 2560)
5. ان کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آئیں.
(سنن ترمذی: 1924، صحیح)
6. ایک دوسرے کو ہدیہ و تحفہ دیا کریں.
(صحیح الجامع: 3004)
7. اگر وہ دعوت دیں تو قبول کریں.
(مسلم: 2162)
8. اگر وہ مہمان بن کر آئیں تو ان کی ضیافت کریں.
(ترمذی: 2485، صحیح)
9. انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.
(مسلم: 2733)
10. بڑے ہوں تو ان کی عزت کریں.
(سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
11. چھوٹے ہوں تو ان پر شفقت کریں -
(سنن ابو داؤد: 4943، سنن ترمذی: 1920، صحیح)
12. ان کی خوشی و غم میں شریک ہوں -
(صحیح بخاری: 6951)
13. اگر ان کو کسی بات میں اعانت درکار ہو تو اس کا م میں ان کی مدد کریں -
(صحیح بخاری: 6951)
14. ایک دوسرے کے خیر خواہ بنیں.
(صحیح مسلم: 55)
15. اگر وہ نصیحت طلب کریں تو انہیں نصیحت کریں.
(صحیح مسلم: 2162)
16. ایک دوسرے سے مشورہ کریں.
(آل عمران: 159)
17. ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں.
(الحجرات: 12)
18. ایک دوسرے پر طعن نہ کریں.
(الھمزہ: 1)
19. پیٹھ پیچھے برائیاں نہ کریں.
(الھمزہ: 1)
20. چغلی نہ کریں.
(صحیح مسلم: 105)
21. آڑے نام نہ رکھیں.
(الحجرات: 11)
22. عیب نہ نکالیں
- (سنن ابو داؤد: 4875، صحیح)
23. ایک دوسرے کی تکلیفوں کو دور کریں.
(سنن ابو داؤد: 4946، صحیح)
24. ایک دوسرے پر رحم کھائیں.
(سنن ترمذی: 1924، صحیح)
25. دوسروں کو تکلیف دے کر مزے نہ اٹھائیں.
(سورہ مطففین سے سبق)
26. ناجائز مسابقت نہ کریں مسابقت کرکے کسی کو گرانا بری عادت ہے۔ اس سے ناشکری یا تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.
(صحیح مسلم: 2963)
27. نیکیوں میں سبقت اور تنافس جائز ہےجبکہ اس کی آڑ میں تکبر، ریاکاری اور تحقیر کارفرما نہ ہو.
(المطففین : 26)
28. طمع ، لالچ اور حرص سے بچیں.
(التکاثر: )
29. ایثار و قربانی کا جذبہ رکھیں.
(الحشر: 9)


30. اپنے سے زیادہ آگے والے کا خیال رکھیں.
(الحشر: 9)
31. مذاق میں بھی کسی کو تکلیف نہ دیں.
(الحجرات: 11)
32. نفع بخش بننے کی کوشش کریں.
(صحیح الجامع: 3289، حسن)
33. احترام سے بات کریں۔بات کرتے وقت سخت لہجے سے بچیں.
(آل عمران: 159)
34. غائبانہ اچھا ذکر کریں.
(ترمذی: 2737، صحیح)
35. غصہ کو کنٹرول میں رکھیں.
(صحیح بخاری: 6116)
36. انتقام لینے کی عادت سے بچیں.
(صحیح بخاری: 6853)
37. کسی کو حقیر نہ سمجھیں.
(صحیح مسلم: 91)
38. اللہ کے بعد ایک دوسرے کا بھی شکر ادا کریں.
(سنن ابو داؤد: 4811، صحیح)
39. اگر بیمار ہوں تو عیادت کو جائیں.
(ترمذی: 969، صحیح)
40. اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو جنازے میں شرکت کریں. (مسلم:)

طنز و مزاح

لڑکیاں پیپر 📋والے دن بھی موٹر سائیکل🚲 کے پیچھے بیٹھ کر کتاب📖 میں جھانک رہی ہوتی ہیں۔ کہ کوئی سوال رہ تو نہیں گیا۔
کمرہ جماعت میں آدھا گھنٹا پہلے پہنچتی ہیں اور یوں منہ ہی منہ میں بیٹھ کر سوالات دوہراتی رہتی ہیں گویا کوئی جن👿 قابو کرنے کیلئے چلہ کاٹ کر رہی ہوں۔
شکی مزاج اس قدر کہ دس بارہ بال پن ساتھ لیکر جاتی ہیں اور باری باری سب بال پنز کو چیک کرتی ہیں کہ چل رہے ہیں یا نہیں۔
اور جیسے ہی امتحانی پرچہ ان کے ہاتھ آتا ہے تو گردن ایسے جھکا 👼کر بیٹھتی ہیں گویا گردن میں اتفاق اسٹیل کا سریا ڈل گیا ہو۔
فضول خرچ انتہا قسم کی کہ ایک سوال پر تین تین شیٹس📑 لگا دیتی ہیں۔ ممتحن بھی جلدی کرکے زیادہ ذہین لڑکی کے قریب نہیں آتا کہ کہیں ایکسٹرا شیٹ📑 ہی نا مانگ لے۔
اگر کوئی دوسری لڑکی غلطی سے ان سے پوچھ لے کہ فلاں سوال کا جواب بتانا تو کہہ دیں گی کہ بہن میں نے بھی نہیں کیا جبکہ محترمہ کو وہی سوال سب سے زیادہ یاد ہوتا ہے۔
اور امتحانات میں %95.6 نمبر لینے کے بعد بھی ناشکریوں کی طرح روتی😭 ہیں کہ میرے %99.9 نمبر کیوں نہیں آئے؟؟؟ اور تین دن تک کھانا نہیں کھاتیں۔۔۔
۔
۔
اور ایک ہمارے لڑکے ہیں ماشاء اللہ ۔ چشم بددور، شاکر قلب، قناعت پسندی کی اعلیٰ مثالیں۔
۔
امتحانات سے قبل آخری رات بھی دوستوں کے ساتھ بیٹھے فلمیں دیکھ کر دوستی کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
۔
اور صبح صبح اہم اہم سوالات پر نظر دوڑا کر پیپر دینے نکل پڑتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنی ذہانت پر کامل یقین ہوتا ہے
۔
اور کمرہ امتحان میں پندرہ منٹ تو یہ سوچ کر لیٹ پہنچتے ہیں کہ کون فضول میں ممتحن صاحب کا لیکچر سنے۔ (فکری سوچ)
قناعت پسند اس قدر کہ گھر سے صرف ایک ہی بال پن لیکر جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پورے امتحانات میں یہی ختم ہوجائے تو بڑی بات ہے۔
جبکہ امداد باہمی کے قائل اس قدر کہ گھر سے ہیڈنگز کیلئے مارکر اور سکیل ہرگز نہیں لیجاتے کہ کون اضافی بوجھ لادے پھرے۔ آزو بازو والے سے مانگ لیں گے۔
مدد اور ایثار کا جذبہ اس قدر کہ اگر کوئی پوچھ لے کہ بھائی اس سوال کا جواب بتانا تو انہیں جواب آتا ہو یا نا آتا ہو سامنے والے کی مدد ضرور کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جواب گھڑ کے کہہ دیتے ہیں کہ بھائی مجھے تو یہ جواب لگتا ہے آگے تیری قسمت۔
۔
اور کفایت شعاری میں لاجواب کہ ملی وسائل کا بے دریغ استعمال ترک کرتے ہوئے دوبارہ شیٹ نہیں مانگتے اور ایک ہی شیٹ پر پورا پرچہ حل کر آتے ہیں۔
ان کا بس چلے تو ساری امتحانات کے جوابات ایک ہی شیٹ پر درج کردیں۔ مطلب کے واہ بھئی واہ۔
۔
اور شاکر قلب اس قدر کہ امتحانات میں %33 نمبر سے پاس ہوکر بھی پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ جبکہ خوشی کے مارے چھاتی چوڑی ہوجانے کی وجہ سے پانچ دن تو ان کو اپنے کپڑے تنگ آتے ہیں۔
۔
۔
۔

اک تحریر

احمقانہ   ھے  درد بیاں   کرنا
عقل ھے ضبط  کی انتہا کرنا
بچپن میں جنوں بُھوتوں اور چُڑیلوں سے خوف آتا تھا پر جب سے ہوش سنبھال کر دُنیا دیکھی تو اندازہ ہوا انسان زیادہ بھیانک مخلوق ھے۔ آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ڈوبنے اور  نکلنے والے سورج کا  منظر تک دیکھ سکے ۔ وہ چاندنی راتوں کے حُسن سے نا آشنا ہوکر رہ گیا ھے ۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں زندگی ملٹن بھی ھے ۔زندگی صرف حاصل ہی نہیں ایثار بھی ھے ۔ہرن کا گوشت الگ حقیقت ھے چشمِ آ ھو الگ مقام ھے ۔زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں احساسِ پرواز بھی ھے ۔ زندگی صرف میں ہی نہیں زندگی وہ بھی ھے ۔ " تو" بھی ھے ۔زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں ۔ چہرے بھی ھیں مُتلاشی نگاہیں بھی ۔ زندگی مادہ ھی نہیں روح بھی ھے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ھی معراجِ محبت  ھے۔
اماں کہتی تھیں ۔زندگی میں ڈپریشن اور توقل کے حوالے سے سب سے اچھی دعا سورة التوبہ کی آخری آیت ھے۔حَسۧبِیَ اللہُ لَااِلَہٰ اِلَّاھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ " کافی ھے مجھے اللہ ۔نہیں معبود سواۓ اُس کے اُسی پر میرا توکل ھے اور وہ رب ھے عرشِ عظیم کا ۔۔ جب دل سے ایک بار کہہ دیتے ھیں کہ کافی ھے مجھے اللہ ۔۔ ہاں مجھے اللہ کافی ھے تو روح کے اندر تک سکون تحلیل ہوتا ھے ۔پھر ہم کہتے ھیں کہ جو اتنے عظیم عرش کا ربّٰ ھے ۔جس نے پوری کائنات سنبھال رکھی ھے ۔ اُس عظیم زات پر میرا بھروسا ھے ۔جب سب سے زبردست ۔سب سے بہترین وکیل ہماری  پُشت پر ھے تو پریشان کیوں ہوں صرف ربّٰ کو نہ بتائیں کہ میری بہت بڑی ھے پریشانی ۔ پریشانی کو بھی اچھی طرح  سمجھا دیں کہ میرا ربّٰ  کتنا بڑا عظیم ربّٰ ھے ۔ انگریزوں کے دورِحکومت میں احمد دین ببے روزگاری سے مایوس ہو کر اللہ میاں کو خط لکھ بیٹھا ۔ کہ اللہ میاں میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو ۔میرے پاس تیس 30 روپے ھیں جو تُمہیں بھیج رہا ہوں ۔ مجھے اچھی سی مُلازمت دلوا دو بوجھ اُٹھا اُٹھا کر میری کمر دوہری ہوگئی ھے ۔ لفافے پر پتہ جناب اللہ میاں ۔مالکِ کائنات لکھ کر لیٹر بکس میں ڈال آیا۔چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو ۔ کائنات ۔ اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا ۔ اس کانام میاں محمد تھا خط کے زریعے اس نے احمد دین کو بُلایا تھا۔۔  وہ کائنات کے دفتر گیا جہاں اُسے مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا آخر رشوت کام آ ہی گئی ۔۔ 
کلمہ   پڑھیا  اُتوں  اُتوں   تے
گَل   اندروں نہ   میں   جانی
پتھراں  وچوں   ہیرے  لبھاں
اپنڑیں   مٹی  نہ  میں  چھانی
اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔

حضرت واصف علی واصف کا اک قول

اگر تتلی پکڑنے کی تمنا ہو جائے تو انسان اسے پکڑنے کے لئے اپنے قافلے سے بچھڑ جاتا ہے اسی طرح اگر اللہ کی تمنا ہو جائے تو آنکھ بند رکھنا ہی بہتر ہے۔
حضرت واصف علی واصف 


  شعروشاعری 

کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
فراز احمد فراز 🌹


مرشد ہمارا خوابِ محبت بکھر گیا
مرشد وہ ایک شخص بھی دل سے اتر گیا
مرشد کسی کا ہجر ستاتا رہا ہمیں
مرشد ہمارے وصل کا سپنا کدھر گیا ؟
مرشد جو معتبر تھا زمانے کے سامنے
مرشد وہ آنسوٶں کی دھنک میں نکھر گیا
مرشد ہمارے ساتھ اداسی تھی ہمسفر
مرشد اُسی کو دیکھ کے شاید وہ ڈر گیا
مرشد گریز کرتا رہا ہم سے ایک شخص
مرشد وہ جب ملا تو حدوں سے گزر گیا
مرشد ہجومِ شہر سے بیزار تھا کہیں
مرشد ہماری راہ میں اکثر ٹھہر گیا

 برستی بارشوں سے صرف مجھے اتنی سی نسبت ہے
کہ اس طرح کا اک موسم میرے اندر بھی رہتا ہے

تیری تسبیح بنا کر تجھے سوچا کرنا___!
مشغلہ یہ میرا مرغوب رہا ہےکچھ دن____!
بارشِ سنگ سے پہلے یہ ذرا سوچ تو لیا ہوتا!
تیرا محسن تیرا محبوب رہا ہے کچھ دن___!
محسن نقوی

 

List