Pages

طنز و مزاح

لڑکیاں پیپر 📋والے دن بھی موٹر سائیکل🚲 کے پیچھے بیٹھ کر کتاب📖 میں جھانک رہی ہوتی ہیں۔ کہ کوئی سوال رہ تو نہیں گیا۔
کمرہ جماعت میں آدھا گھنٹا پہلے پہنچتی ہیں اور یوں منہ ہی منہ میں بیٹھ کر سوالات دوہراتی رہتی ہیں گویا کوئی جن👿 قابو کرنے کیلئے چلہ کاٹ کر رہی ہوں۔
شکی مزاج اس قدر کہ دس بارہ بال پن ساتھ لیکر جاتی ہیں اور باری باری سب بال پنز کو چیک کرتی ہیں کہ چل رہے ہیں یا نہیں۔
اور جیسے ہی امتحانی پرچہ ان کے ہاتھ آتا ہے تو گردن ایسے جھکا 👼کر بیٹھتی ہیں گویا گردن میں اتفاق اسٹیل کا سریا ڈل گیا ہو۔
فضول خرچ انتہا قسم کی کہ ایک سوال پر تین تین شیٹس📑 لگا دیتی ہیں۔ ممتحن بھی جلدی کرکے زیادہ ذہین لڑکی کے قریب نہیں آتا کہ کہیں ایکسٹرا شیٹ📑 ہی نا مانگ لے۔
اگر کوئی دوسری لڑکی غلطی سے ان سے پوچھ لے کہ فلاں سوال کا جواب بتانا تو کہہ دیں گی کہ بہن میں نے بھی نہیں کیا جبکہ محترمہ کو وہی سوال سب سے زیادہ یاد ہوتا ہے۔
اور امتحانات میں %95.6 نمبر لینے کے بعد بھی ناشکریوں کی طرح روتی😭 ہیں کہ میرے %99.9 نمبر کیوں نہیں آئے؟؟؟ اور تین دن تک کھانا نہیں کھاتیں۔۔۔
۔
۔
اور ایک ہمارے لڑکے ہیں ماشاء اللہ ۔ چشم بددور، شاکر قلب، قناعت پسندی کی اعلیٰ مثالیں۔
۔
امتحانات سے قبل آخری رات بھی دوستوں کے ساتھ بیٹھے فلمیں دیکھ کر دوستی کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
۔
اور صبح صبح اہم اہم سوالات پر نظر دوڑا کر پیپر دینے نکل پڑتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنی ذہانت پر کامل یقین ہوتا ہے
۔
اور کمرہ امتحان میں پندرہ منٹ تو یہ سوچ کر لیٹ پہنچتے ہیں کہ کون فضول میں ممتحن صاحب کا لیکچر سنے۔ (فکری سوچ)
قناعت پسند اس قدر کہ گھر سے صرف ایک ہی بال پن لیکر جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پورے امتحانات میں یہی ختم ہوجائے تو بڑی بات ہے۔
جبکہ امداد باہمی کے قائل اس قدر کہ گھر سے ہیڈنگز کیلئے مارکر اور سکیل ہرگز نہیں لیجاتے کہ کون اضافی بوجھ لادے پھرے۔ آزو بازو والے سے مانگ لیں گے۔
مدد اور ایثار کا جذبہ اس قدر کہ اگر کوئی پوچھ لے کہ بھائی اس سوال کا جواب بتانا تو انہیں جواب آتا ہو یا نا آتا ہو سامنے والے کی مدد ضرور کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جواب گھڑ کے کہہ دیتے ہیں کہ بھائی مجھے تو یہ جواب لگتا ہے آگے تیری قسمت۔
۔
اور کفایت شعاری میں لاجواب کہ ملی وسائل کا بے دریغ استعمال ترک کرتے ہوئے دوبارہ شیٹ نہیں مانگتے اور ایک ہی شیٹ پر پورا پرچہ حل کر آتے ہیں۔
ان کا بس چلے تو ساری امتحانات کے جوابات ایک ہی شیٹ پر درج کردیں۔ مطلب کے واہ بھئی واہ۔
۔
اور شاکر قلب اس قدر کہ امتحانات میں %33 نمبر سے پاس ہوکر بھی پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ جبکہ خوشی کے مارے چھاتی چوڑی ہوجانے کی وجہ سے پانچ دن تو ان کو اپنے کپڑے تنگ آتے ہیں۔
۔
۔
۔

اک تحریر

احمقانہ   ھے  درد بیاں   کرنا
عقل ھے ضبط  کی انتہا کرنا
بچپن میں جنوں بُھوتوں اور چُڑیلوں سے خوف آتا تھا پر جب سے ہوش سنبھال کر دُنیا دیکھی تو اندازہ ہوا انسان زیادہ بھیانک مخلوق ھے۔ آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ڈوبنے اور  نکلنے والے سورج کا  منظر تک دیکھ سکے ۔ وہ چاندنی راتوں کے حُسن سے نا آشنا ہوکر رہ گیا ھے ۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں زندگی ملٹن بھی ھے ۔زندگی صرف حاصل ہی نہیں ایثار بھی ھے ۔ہرن کا گوشت الگ حقیقت ھے چشمِ آ ھو الگ مقام ھے ۔زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں احساسِ پرواز بھی ھے ۔ زندگی صرف میں ہی نہیں زندگی وہ بھی ھے ۔ " تو" بھی ھے ۔زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں ۔ چہرے بھی ھیں مُتلاشی نگاہیں بھی ۔ زندگی مادہ ھی نہیں روح بھی ھے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ھی معراجِ محبت  ھے۔
اماں کہتی تھیں ۔زندگی میں ڈپریشن اور توقل کے حوالے سے سب سے اچھی دعا سورة التوبہ کی آخری آیت ھے۔حَسۧبِیَ اللہُ لَااِلَہٰ اِلَّاھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ " کافی ھے مجھے اللہ ۔نہیں معبود سواۓ اُس کے اُسی پر میرا توکل ھے اور وہ رب ھے عرشِ عظیم کا ۔۔ جب دل سے ایک بار کہہ دیتے ھیں کہ کافی ھے مجھے اللہ ۔۔ ہاں مجھے اللہ کافی ھے تو روح کے اندر تک سکون تحلیل ہوتا ھے ۔پھر ہم کہتے ھیں کہ جو اتنے عظیم عرش کا ربّٰ ھے ۔جس نے پوری کائنات سنبھال رکھی ھے ۔ اُس عظیم زات پر میرا بھروسا ھے ۔جب سب سے زبردست ۔سب سے بہترین وکیل ہماری  پُشت پر ھے تو پریشان کیوں ہوں صرف ربّٰ کو نہ بتائیں کہ میری بہت بڑی ھے پریشانی ۔ پریشانی کو بھی اچھی طرح  سمجھا دیں کہ میرا ربّٰ  کتنا بڑا عظیم ربّٰ ھے ۔ انگریزوں کے دورِحکومت میں احمد دین ببے روزگاری سے مایوس ہو کر اللہ میاں کو خط لکھ بیٹھا ۔ کہ اللہ میاں میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو ۔میرے پاس تیس 30 روپے ھیں جو تُمہیں بھیج رہا ہوں ۔ مجھے اچھی سی مُلازمت دلوا دو بوجھ اُٹھا اُٹھا کر میری کمر دوہری ہوگئی ھے ۔ لفافے پر پتہ جناب اللہ میاں ۔مالکِ کائنات لکھ کر لیٹر بکس میں ڈال آیا۔چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو ۔ کائنات ۔ اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا ۔ اس کانام میاں محمد تھا خط کے زریعے اس نے احمد دین کو بُلایا تھا۔۔  وہ کائنات کے دفتر گیا جہاں اُسے مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا آخر رشوت کام آ ہی گئی ۔۔ 
کلمہ   پڑھیا  اُتوں  اُتوں   تے
گَل   اندروں نہ   میں   جانی
پتھراں  وچوں   ہیرے  لبھاں
اپنڑیں   مٹی  نہ  میں  چھانی
اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔

حضرت واصف علی واصف کا اک قول

اگر تتلی پکڑنے کی تمنا ہو جائے تو انسان اسے پکڑنے کے لئے اپنے قافلے سے بچھڑ جاتا ہے اسی طرح اگر اللہ کی تمنا ہو جائے تو آنکھ بند رکھنا ہی بہتر ہے۔
حضرت واصف علی واصف 


  شعروشاعری 

کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اب کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولت دل ہے وہی جو راحت جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے
جو ہم سفر سر منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔ
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
فراز احمد فراز 🌹


مرشد ہمارا خوابِ محبت بکھر گیا
مرشد وہ ایک شخص بھی دل سے اتر گیا
مرشد کسی کا ہجر ستاتا رہا ہمیں
مرشد ہمارے وصل کا سپنا کدھر گیا ؟
مرشد جو معتبر تھا زمانے کے سامنے
مرشد وہ آنسوٶں کی دھنک میں نکھر گیا
مرشد ہمارے ساتھ اداسی تھی ہمسفر
مرشد اُسی کو دیکھ کے شاید وہ ڈر گیا
مرشد گریز کرتا رہا ہم سے ایک شخص
مرشد وہ جب ملا تو حدوں سے گزر گیا
مرشد ہجومِ شہر سے بیزار تھا کہیں
مرشد ہماری راہ میں اکثر ٹھہر گیا

 برستی بارشوں سے صرف مجھے اتنی سی نسبت ہے
کہ اس طرح کا اک موسم میرے اندر بھی رہتا ہے

تیری تسبیح بنا کر تجھے سوچا کرنا___!
مشغلہ یہ میرا مرغوب رہا ہےکچھ دن____!
بارشِ سنگ سے پہلے یہ ذرا سوچ تو لیا ہوتا!
تیرا محسن تیرا محبوب رہا ہے کچھ دن___!
محسن نقوی

 

List