Pages

اُردو ‏ ‏کا ‏خون کب اور کیسے ‏ہُوا۔

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔ 

لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف انگریزی کے چند الفاظ ہی مستعمل تھے، 

مثلا": 
ہیڈ ماسٹر، 
فِیس، 
فیل، 
پاس وغیرہ
 "گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا" سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔ 
 عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی

 سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔ 
 پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ *اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم* جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔ 
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔ 
 تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں

 چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا 

 پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے

 ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں

 اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں

قلم 
دوات، 
سیاہی، 
تختی، اور
سلیٹ 
 جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا 
 اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں

ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا
 
 اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے

پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
 اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے
 
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
 یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا

باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے

غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔ 
 مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔ 
 دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔ 
 کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں- 
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ 
 چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔ 
 بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔ 
 یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد، 
 ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے

 دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے
 
سڑکیں روڈز بن گئیں۔ 
 کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا

کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا، 
 *نائی* نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔
 پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ Call کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں 
 اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر *محبت* کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔ 

 *صحافی* رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے....

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔۔۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں، عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
 وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامیِ متاع کارواں جاتا رہا 
 کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے ہیں؟
 دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
 بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

*🙏🙏روکیے، خدا را روکیے،*
 *ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔*🙏🙏🙏

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.
ملاحظہ: *قومیں اپنی مادری زبان کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں*.


لازمی ‏پڑھیں ‏

توجہ فرمائیں! 
ہر بندہ یہ پوسٹ لازمی پڑھے اور شئیر کرے۔
 تیز ترین درد کُش انسیڈ یعنی فلربی بروفن ہے ، جو معدے کے ساتھ ، جگر ، گُردے کا ستیاناس کردیتی ہے* اور وہ بھی اس کم عُمر بچے کو کیوں دی؟
 سب سے محفوظ تصّور کی جانے والی *پیناڈول گولیوں سے لاکھوں کروڑوں لوگ جگر کی سُکڑنے والی بیماری کا شکار* ہوچکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ *پونسٹان ، بروفین ، ڈائکلو ، وورین ، بریکسین ، فیلڈین وغیرہ دردوں کو کم کرنے والی گولیاں ہیں ، لیکن یہ ادویات فائدے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ نقصان کی حامل بھی ہیں*۔ اس کا زیادہ یا متواتر استعمال *دِل ، جگر اور گُردوں کے لیے بے حد نقصان دہ ہے*۔
 آج کل تو ہر کوئی *بیفلام دھڑادھڑ استعمال کررہا ہے*۔ یہ کام نہ کریں، بِلاضرورت اور کم تکلیف میں دردوں کی دوائیوں سے پرہیز کریں
*آسان حل*۔۔۔
 آپ دردوں اور بُخار کی صورت میں اجوائن کو جوش دے کر پیئیں۔ *اجوائن* سے ہومیوپیتھک دوائی *بیلاڈونا* بنتی ہے جو بُخاروں کی مُجرب دوائی ہے۔
 مقامی *خودرو پودے شماکے* کو پانی میں جوش دے کر پیا لریں۔ اگر *درد ہمیشہ رہے تو ادرک ، لہسن ، کالی مرچ کو سالن میں ڈبل ، ٹربل کرلیں۔ کچی ہلدی کو جوش دے کر پیا کریں*۔
دردوں کے لیے *سورنجانِ شیریں پیس کر دودھ سے لیا کریں۔*
*اپنا دُشمن خود نہ بنیں۔ ۔*
 *آپ نے ٹی وی پر *پیناڈول* کا اشتہار* دیکھا ہوگا جس میں کہتے ہیں کہ سردرد میں* *دو گولیاں پیناڈول لیں تو ایسا بِالکل بھی نہ کریں۔ یہ ایک ہزار ملی گرام بنتی ہے جبکہ آپ کا سردرد صرف بھاپ لینے سے بھی ٹھیک ہوسکتا ہے*۔
 *جسمانی درد تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتا ہے تو آپ جی بھر کر آرام کریں۔ *خالی پیٹ دردوں کی کوئی دوائی نہ خود لیں نہ کسی کو دیں*۔ *بچّوں کو لگاتار کیل پول ، پیڈرال یا بروفین شربت نہ پلائیں*۔
 *بچّوں اور بڑوں کی زیادہ بیماریاں *ناک بند* *ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں تو ایسے میں گرم بھاپ دیا کریں ،* *جوشاندہ اور توت سیاہ شربت پلایا کریں۔ سبز قہوہ ، ادرک اور شہد ملا کر پلایا کریں*
 *لکیر کے فقیر نہ بنیں۔ ذرا سی تکلیف کی صورت میں اتنی نُقصان دہ انگریزی ادویات دھڑادھڑ استعمال نہ کریں۔ ہمیشہ کے نُقصان سے بچیں۔*
 بچوں کو تباہ ہونے سے بچائیں اور اس پیغام کو مفادِعامہ کی خاطر زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ۔۔۔۔شُکریہ۔*
*(کوئی بھی دوائی لینے سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ لازمی کریں)*۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ  کو لازمی شئیر کریں

‎وہ کونسی غذائیں ہیں جنہیں کبھی بھی فریج میں نہیں رکھنا چاہیے؟ ‏

چند ایسی غذائیں جو فریج میں سٹور کرنے سے زہر بن جاتی ہیں:
===============
ہمارے ہاں مختلف غذائیں یہ سوچ کر فریج میں رکھ دی جاتی ہیں کہ اس طرح یہ تروتازہ رہیں گی جبکہ ان کا ذائقہ بھی برقرار رہے گا- تاہم لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ کئی غذاؤں کو فریج میں رکھنا فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس عمل سے یہ غذائیں اپنی افادیت یا ذائقہ کھو دیتی ہیں- وہ کونسی غذائیں ہیں جنہیں کبھی بھی فریج میں نہیں رکھنا چاہیے؟ آئیے جانتے ہیں:
۔•۔
اگر آپ شہد کو اپنے گھر کے فریج میں رکھیں گے تو یہ ایک بےذائقہ اور دانے دار مواد میں تبدیل ہوجائے گا- شہد کے لیے بہتر ہے کہ اسے عام درجہ حرارت میں ہی رکھا جائے-
۔•۔
پیاز کو فریج میں رکھنے سے نہ صرف یہ نرم پڑ جاتا ہے بلکہ اس کی بو آس پاس موجود دیگر غذاؤں میں پاس موجود دیگر غذاؤں میں بھی شامل ہوجاتی ہے- پیاز کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایسی کم روشنی والی جگہ پر رکھا جائے جہاں ہوا کا گزر ہو-
۔•۔
سیب کو اگر طویل مدت کے لیے فریج میں رکھ دیا جائے تو وہ اپنا ذائقہ کھونے لگتے ہیں- سیب کو ہمیشہ نارمل درجہ حرارت میں رکھا جائے اور کھانے سے صرف 30 منٹ قبل فریج میں رکھیں٬ اس عمل سے سیب خستہ ہوجائے گا-
۔•۔
آلوؤں کو فریج میں رکھنے سے اس کا ذائقہ خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ اس میں موجود نشاستہ بھی ضائع ہوسکتا ہے- آلوؤں کو ہمیشہ پیپر بیگ میں رکھ کر ایسے مقام پر رکھیے جہاں ہوا اور کم روشنی کا گزر ہو-
۔•۔
ٹماٹروں کو اگر فریج میں رکھ دیا جائے تو یہ اپنا ذائقہ کھونے لگتے ہیں اور ساتھ ہی یہ نرم بھی پڑنے لگتے ہیں- ٹماٹروں کو اگر تازہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ہمیشہ نارمل درجہ حرارت میں ہی رکھیے-
۔•۔
اکثر لوگ یہ سوچ کر ڈبل روٹی فریج میں محفوظ کر دیتے ہیں کہ تروتازہ رہے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈبل باہر کی نسبت فریج کے اندر زیادہ تیزی سے سوکھنے لگتی ہے- ڈبل روٹی کو ہمیشہ ایسے ڈبے میں رکھیے جہاں سے ہوا کا گزر ہو-
۔•۔
مرچیں چاہے لال ہوں٬ ہری ہوں یا پھر پیلی انہیں ہمیشہ پیپر بیگ میں رکھ کر کچن میں ہی چھوڑ دیجیے- اس طرح مرچیں تروتازہ اور افادیت سے بھرپور رہیں گی
۔•۔
-لہسن کو بھی پیپر بیگ میں رکھ کر کم روشنی لیکن تازہہوا والی جگہ پر رکھ دیجیے٬ ہفتوں بعد بھی استعمال کریں گے تو ذائقہ پہلے روز والا ہی ملے گا-
۔•۔
 خشک میوہ جات کو بھی فریج میں رکھنے سے گریز کیجیے کیونکہ یہ خراب ہوسکتے ہیں یا پھر اپنی افادیت کھو سکتے ہیں-
۔•۔
تازہ بیریز کی زندگی پہلے ہی بہت مختصر ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ انہیں فریج میں رکھنے کے بجائے خریداری کے بعد 1 سے 2 دن میں لازمی استعمال کر لیا جائے-

آج ‏سے100 ‏سال ‏بعد ‏کیا ‏ہوگا؟


سبق آموز
آج سے 100 سال بعد مثال کے طور پر 2121 میں ہم سب اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ زیر زمین ہوں گے
اور اجنبی ہمارے گھروں میں رہیں گے
اور ہماری جائیداد غیر لوگوں کی ملکیت ہوگی
انہیں ہماری کچھ یاد بھی نہیں رہے گی ابھی بھی ہم میں سے کون اپنے دادا کے باپ کا سوچے گا .. ہم اپنی نسلوں کی یاد میں تاریخ کا حصه بن جائیں گے، جبکہ لوگ ہمارے نام اور شکلیں بھول جائیں گی..
سو سال میں کئی اندھیرے اور ٹھہراؤ آئیں گے
تب ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیا کتنی معمولی تھی، اور سب کچھ اور دوسرے سے زیادہ پا لینے کے خواب کتنے نادان اور خسارے کی سوچ کے حامل تھے،
اور ہم چاہیں گے کہ اگر ہم اپنی ساری زندگی نیکیاں سمیٹتے اور نیکیاں کرتے ہوئے گزاریں تو وه موقع آج ھمارے پاس خوش قسمتی سے موجود ھے.. جب تک ہم باقی ہیں۔۔
ابھی زندگی باقی ہے ۔۔
اے اللہ ہمیں ہدایت دے..
اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر کردے۔۔۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین ....

کمفرٹ ‏زون ‏سے ‏باہر ‏نکلیں


کمفرٹ زون ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں آپ نئے چیلنج  قبول کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔

اس میں رہتے ہوئے ،آپ زندگی کو بہتر بنانے یا پروفیشنل لائف میں ترقی کرنے ، آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی  نہیں کرتے۔

آپ ایک خاص لیول تک کامیابی ، اپنے گولز حاصل کر چکے ہوتے ہیں لیکن اگلے لیول پر جانے کی کوشش نہیں کرتے  ۔

کمفرٹ زون میں رہتے ہوئے آپ آرام طلب اور سست ہو جاتے ہیں ۔ اس میں چیزیں آپ کے لیے آسان بن چکی ہوتی ہیں۔ جو عادات پختہ ہو چکی ہوتی ہیں زندگی بس ان کے اردگرد گھوم رہی ہوتی ہے ۔ چیزیں آٹو پائلٹ پر ہوتی ہیں۔ آپ کی زندگی میں ایک روٹین اور یکسانیت ہوتی ہے۔ 

کمفرٹ زون میں زیادہ عرصہ رہنا آپ کے لیے خطرناک ہے۔ یہ آپ کو اعتماد اور خوشی سے محروم کر دے گا۔ آپ کی زندگی کی کوالٹی کو نقصان پہنچائے گا۔ اس سے آپ کی صلاحیتیں ماند پڑنے لگیں گی۔
ہمیں اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ہم صرف اسی وقت اچھا محسوس کریں گے  جب ہمارے پاس چیلنج ہوں گے، جب ہم grow کر رہے ہوں۔ 

سیلف امپروومنٹ کے مطابق اگر آپ grow کرنا چھوڑ دیں گے ، تو آپ زوال کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ grow کرنے کے لیے آپ کو کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔

جب آپ کوئی نیا اور مشکل کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں ۔

یہ نیا کام  کوئی skill یا مہارت ہو سکتی ہے جیسے پبلک سپیکنگ یا کسی نئی زبان میں مہارت حاصل کرنا

یہ نیا کام کوئی نئی عادت ہو سکتی ہے جیسے ٹائم مینجمنٹ سیکھنا ۔

یہ نیا کا م کوئی رویہ ہو سکتا ہے جیسے دوسرے کے بارے میں اپنا تنقیدی رویہ کم کرنا یا زیادہ سوشل اور ملنسار بننا۔

کیسے پتا چلے گا کہ ہم کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھتے ہیں یا نہیں ؟ یاد رکھیں کہ کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا وہ آپ کےلیے کچھ مشکل ہو گا۔

جب آپ اس کو کرنے کا سوچیں گے تو یہ آپ کو خوف سے بھر دے گا۔ 

اس میں رسک ہو گا کہ شاید آپ ناکام ہو جائیں ۔

اس میں ناکامی کی صورت میں آپ کو  مذاق کا نشانہ بنایا جا سکتا ہیں ۔
کمفرٹ زون سے باہر جو بھی کام ہو گا اس کے لیے آپ کو اپنی ہمت جمع کرنی پڑے گی ، خود کو بار بار قائل کرنا پڑے گا۔ 
آپ کو سٹریس میں سے گزرنا پڑے گا۔ آپ کو خود کو stretch کرنا پڑے گا۔  خود کو بدلنا پڑے گا۔ آپ کو پورا زور لگانا پڑے گا۔
اس کے لیے آپ کو اپنا علم بڑھانا ہو گا۔ نئی منصوبہ بندی کرنا ہو گی ۔ تخلیقی صلاحیت کو جگانا پڑے گا۔

اپنا جائزہ لیں کہ کیا آپ سیلف امپروومنٹ کے لیے کچھ نیا سیکھنے یا کرنے کا سوچ رہے ہیں ؟ جو آپ کے لیے چیلنج ہو۔

نئے خوابوں ، نئے  منصوبوں پر کام شروع کریں ۔ نئے لیول پر جانے کی تیاری کریں ۔ اپنی زندگی کو جامد نہ ہونے دیں،  اس میں نیا ولولہ ، نیا جوش لے کر آئیں ۔

زندگی کا مزہ اسی میں ہے کہ کمفرٹ زون سے باہر قدم رکھا جائے۔ کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں ؟

کمفرٹ زون سے باہر ایک شاندار زندگی آپ کی منتظر ہے۔

منقول

بہترین ‏لباس

*بہترین لباس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ لہذا اے مومنو! تقویٰ اختیار کرو۔ ✨*🌹💐💖

ہر حال میں خوش رہیں

 

کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔


کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔


جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔


بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔


اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔


کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔


کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔


اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔


انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔


نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔


اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان  ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا . کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔ 💗


         💞خوش رہیں سلامت رہیں💞

قاضی صاحب (موجودہ زمانے کا)

 اﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ " بھائی ذرا اﺱ مرغی ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ دے ﺩﻭ "

ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﺮﻏﯽ ﺭکھ ﮐﺮچلے ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨٹے ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ "

ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ پر آ گیا ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ"

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﯾﮧ مرغی ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ھﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯽ ﻧﮩﯿﮟ جو آپ کو دے سکوں" 

قاضی ﻧﮯ کہا کہ کوئی بات نہیں ، ﯾﮩﯽ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﻣﺎﻟﮏ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﺎ کہ مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽھے "

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﺍﯾﺴﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﺎ بھلا ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ھو گا ؟ مرغی تو ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯼ تھی پھر ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ سکتی ھے" ؟

قاضی ﻧﮯ ﮐﮩﺎ- " ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ اسے غور سے ﺳﻨﻮ ! ﺑﺲ ﯾﮧ مرغی ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ ﺍﺱ کے مالک ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﻮ ﮐﮧ تیری مرغی ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے - ﻭﮦ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ خلاف مقدمہ لے کر ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺋﮯ ہی ﮔﺎ " 

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ " ﺍﻟﻠﻪ سب کا ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮐﮭﮯ" اور مرغی قاضی کو پکڑا دی - 

قاضی ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ نکل ﮔﯿﺎ ﺗﻮ مرغی کا ﻣﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ دکاندار سے ﮐﮩﺎ کہ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ھے ؟

ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " میں نے تو کاٹ دی تھی مگر ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے" 

ﻣﺮﻏﯽ ﻭالے نے حیران ھو کر پوچھا : بھلا وہ ﮐﯿﺴﮯ ؟ "ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﮌ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺌﯽ ھے ؟ دونوں میں پہلے نوک جھونک شروع ھوئی اور پھر بات جھگڑے تک جا پہنچی جس پر ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ کہ" ﭼﻠﻮ ﻋﺪﺍﻟﺖ قاضی کے پاس چلتے ھیں " اور چل پڑے - 

ﺩﻭﻧﻮﮞ نے ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺟﺎﺗﮯ ھﻮﺋﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭ ﺁﺩﻣﯽ ﻟﮍ ﺭھﮯ ہیں ، ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ھﮯ جبکہ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮩﻮﺩﯼ - ﭼﮭﮍﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﯽ آنکھ ﻣﯿﮟ جا ﻟﮕﯽ ﺍﻭﺭ یہودی کی آنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ - ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ کہ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻟﮯ کر ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ - ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ ﺩﻭ مقدے ﺑﻦ ﮔﺌﮯ - 

ﻟﻮﮒ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﻮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺐ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﺍپنے آپ کو چھڑا ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ، ﻣﮕﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ھو کر ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼڑھ ﮔﯿﺎ - ﻟﻮﮒ جب ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ لئے ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ تو ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ - 

ﺍﺏ ﺍﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ لیا ﺍﻭﺭ سب اس کو ﻟﮯ ﮐﺮ قاضی ﮐﮯ ﭘﺎس ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ - 

قاضی مرغی فروش ﮐﻮ ﺩﯾکھ ﮐﺮ ﮨﻨﺲ ﭘﮍﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻏﯽ ﯾﺎﺩ ﺁ ﮔﺌﯽ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺩﻭ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ اسے ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ - 

ﺟﺐ قاضی ﮐﻮ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﯿﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ اس نے سر پکڑ لیا - اس کے بعد چند کتابوں کو الٹا پلٹا اور کہا کہ "ھم تینوں مقدمات کا یکے بعد دیگرے فیصلہ سناتے ھیں" ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ - 

قاضی نے پوچھا ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﭘﺮ دعوی ﮐﯿﺎ ھے ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ: ''جناب والا ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﭼﺮﺍﺋﯽ ھے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ھﮯ ﮐﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ھے''  -  قاضی صاحب ! ﻣﺮﺩﮦ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮌ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ؟؟

قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﻟﻠﻪ اور اس کی قدرت ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ؟

ﻣﺮﻏﯽ ﻭﺍﻻ:  ''ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ قاضی صاحب''

قاضی: '' ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺑﻮﺳﯿﺪﮦ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﺎ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﮌﻧﺎ بھلا کیا مشکل ھے''

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ کا مالک خاموش ھو گیا اور اپنا کیس واپس لے لیا - 

قاضی: '' ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺪﻋﯽ ﮐﻮ ﻻﺅ '' -  ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ عرض کیا کہ '' قاضی ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭی ھے ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁنکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧکھ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ '' 

قاضی ﻧﮯ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ: " ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﯾﺖ ﻧﺼﻒ ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺩﻭﺳﺮﯼ آنکھ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ آنکھ ﭘﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ " 

ﯾﮩﻮﺩﯼ: " بس ﺭھنے ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﯿﺲ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﮨوں" 

قاضی: " ﺗﯿﺴﺮﺍ مقدمہ بھی پیش کیا جائے" - 

ﻣﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ عرض کیا کہ " قاضی صاحب ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﮔﯿﺎ " 

قاضی تھوڑی دیر ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻮﻻ: " ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭکہ تم لوگ ﺍسی ﻣﯿﻨﺎﺭ پر جاؤ ﺍﻭﺭ مدعی ﺍﺱ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺱ مدعی علیہ (ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ) ﭘﺮ اسی طرح ﭼﮭﻼﻧﮓ ﻟﮕﺎ دے جس طرح مرغی فروش نے اس کے باپ پر چھلانگ لگائی تھی"

نوجوان نے کہا: " قاضی صاحب ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮐﺮ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ گا "

قاضی نے کہا " ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ، میرا کام عدل کرنا ھے - ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﭖ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ؟؟؟ 

نوجوان نے اپنا دعوی واپس لے لیا - 

 نتیجہ اگر آپ کے پاس قاضی کو دینے کے لئے مرغی ھے تو پھر قاضی بھی آپ کو بچانے کا ہر ھنر جانتاھے - 

اُمید ہے موجودہ نظامِ عدل کے تناظر میں آپ اس کہانی کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے ؟😂😂

☆سلطان اور ایران کا بادشاہ


حضرت سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایران کا بادشاہ اپنے سفیر کیساتھ ملاقات کے لۓ آیا ھوا تھا دن سارا سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال میں گزر گیا رات کے کھانے کے بعد ایرانی بادشاہ اور سفیر کو مہمان خانے میں آرام کرنے کی غرض سے بھیج دیا گیا۔۔۔


سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ خود بھی مہمان خانہ میں ھی ایک الگ خیمہ نما کمرے میں ٹھہرے تا کہ مہمان داری میں کوئی کمی نا رہ جاے۔۔۔


تقریباً نصف رات کے بعد سلطان نے اپنے خیمہ کے باھر کھڑے غلام کو آواز دی :


حسن۔۔۔


اس نے پانی کا لوٹا اور خرمچی اٹھائی اور خیمہ میں داخل ھو گیا ۔۔۔


ایرانی بادشاہ بڑی حیرت سے اپنے خیمہ کے پردہ سے یہ منظر دیکھ رھا تھا اور ساتھ ھی ساتھ سلطان محمود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے غلام حسن کا باھر آنے کا منتظر بھی تھا ۔۔۔


جیسے کوئی سوال اسکو بے چین کے ھوے تھا


جیسے ھی حسن سلطان کے خیمہ سے باھر نکلا ایرانی بادشاہ نے اسے بلایا اور پوچھا جب سلطان نے تمھیں آواز دی حسن۔۔۔


تو تمھارا حق تھا پہلے پوچھتے جی کیا حکم ھے آقا۔۔۔!


تم بنا پوچھے ھی پانی کا لوٹا اور خرمچی لیکر سلطان کے خیمہ میں چلے گۓ ھو سکتا ھے سلطان کو کسی اور چیز کی طلب ھو ۔۔؟


حسن مسکرایا اور ایرانی بادشاہ کو جواب دیتے ھوے بولا


حضور میرا مکمل نام محمد حسن ھے...


اور میرا سلطان ھمیشہ با وضو رھتا ھے اور جب اسکا وضو نا ھو تب ھی مجھے حسن کہہ کر پکارتا ھے۔۔


اور میں سمجھ جاتا ھوں اب سلطان کو وضو کی حاجت ھے جو انہوں نے اسم محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبان سے ادا نہیں کیا۔۔


آج تک میرے سلطان نے بغیر وضو کے مجھے محمد حسن کہہ کر نہیں پکارا ۔۔۔


اللّٰہ اکبر۔۔۔!


یہ تھے وہ ھمارے اسلامی تاریخ کے" ھیروز "جن کے دلوں میں عشق مصطفیٰ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ...


اور کافر مشرک انکا نام سن کر کانپتے تھے۔۔۔


جب تک مسلمان بادشاھوں کے ھاتھوں میں "قرآن و حدیث" اور صوفیاء کا دامن تھا تب انکا غلبہ بھی تھا ...


جب ھاتھوں میں "شراب کے جام" اور بانہوں میں "عورتوں کے بدن" آنے لگے تو "ذلت و رسوائی" ھمارا مقدر ٹھہری.....



*🇵🇰

اسلام امن کا درس دیتا ہے۔

*ان دو جملوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کردیا*
*1* > اسلام امن کا درس دیتا ھے.
اس جملے کی وجہ سے مسلمانوں کے دس ملک تباہ ہوگۓ. حالانکہ اسلام امن کے ماحول میں امن کا درس دیتا ھے جبکہ دشمن بھی امن چاھتا ھو. اگر دشمن امن نہ چاھے تو *اسلام دفاع غیرت اور جہاد کا درس دیتا ہے.*
*2*> پردہ دل کا ہوتا ھے.

اس جملے کی وجہ سے آدھی سے زیادہ انسانیت ننگی ہوگئ. کیونکہ اگر نظر کو غلط چیز دیکھنے سے نہ بچایا جاۓ تو دل بھی خراب اور گندا ہوجاتا ھے. اور آدمی بے حیا بن جاتا ھے.

بیوی کی مار ولی بنا دیتی ہے

 *بیوی کی مار ولی بنا دیتی ہے!* 


شیخ سیدی احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے خواب میں دیکھا کہ آپ صدیقیت کے مرتبے پر فائز ہیں

مریدوں نے یہ بات آپ کو نہ بتائی شیخ رحمہ اللہ کے ایک بد اخلاق بیوی تھی جو آپ کو برا بھلا کہتی اور تکلیفیں دیتی تھی.

وہی مرید ایک دن آپ کے پاس گیا تو دیکھا کہ بیوی نے تندور والا چمٹا پکڑا ہے اور مسلسل آپ کے کندھوں پر مار رہی ہے جس سے سارے کپڑے کالے ہو گئے لیکن شیخ خاموش رہے. 

مرید دیکھ کر گھبرا گیا پیر بھائیوں کو جمع کیا اور بولا بھائیو! یہ عورت پیر صاحب کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے اور تم بے حس بنے بیٹھے ہو؟ 

پیر بھائی بولے : ہم نے سنا ہے اس عورت کا مہر پانچ سو سونے کے سکے ہیں جبکہ شیخ کے پاس اتنا مال نہیں. 

وہی مرید پانچ سو سکے لے کر شیخ کے پاس گیا اور آپ کی جھولی میں ڈال دئیے 

پیر صاحب نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ 

مرید نے عرض کی : حضور! اس بدبخت عورت کا مہر ہے جو آپ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے دیجیے اور جان چھڑائی. 


پیر صاحب سن کر مسکرانے لگے اور فرمایا : اس عورت کی مار اور زبان درازی پر اگر میں صبر نہ کرتا تو توں میرا صدیقیت کا مقام بھی نہ دیکھ سکتا. 


الصبر علی الزوجات صفحہ 18 19 


حضرت کعب الأحبار فرماتے ہیں : جو اپنی بیوی کی اذیت پر صبر کرے اللہ اس کو حضرت ایوب علیہ السلام کی مانند ثواب عطا فرمائے گا 

اور جو بیوی اپنے شوہر کی اذیت پر صبر کرے اللہ تعالی اسے حضرت آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی) جتنا ثواب عطا فرمائے گا


ایضاً 22 


امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: امت کے بعض نیک لوگوں کو جب کسی بد اخلاق عورت یاغلام کا پتا چلتا تو اس عورت سے نکاح کر لیتے اور غلام خرید لیتے تاکہ ان کی بد اخلاقی پر صبر کر سکیں. 


ایضا 23 


امام شعرانی نے اپنے استاد شیخ علی الخواص رحمہ اللہ کا قول نقل کیا : بیوی کے اخلاق اصل میں مرد کے اخلاق کا نتیجہ ہیں؛ کیونکہ عورت تو مرد سے ہی پیدا ہوئی ہے مرد اپنی بد اخلاقی سے غافل ہو جائے تو عورت کے اخلاق کی طرف دیکھ لے کہ وہ مرد کا اخلاق ہی دیکھاتی ہے 

پیارے بھائی اگر توں چاہتا ہے کہ تیری بیوی با اخلاق ہو تو اللہ تعالی کی فرماں برداری کرتا رہ اس بات سے بہت سے لوگ غافل ہے، اپنی بیویوں کی شکایتے کرتے ہیں اور خود کو نہیں دیکھتے! اگر ہماری بات پر توجہ دیں، اپنا آپ ٹھیک کر لیں تو ان کی بیویاں خودی درست ہو جائیں گی. 


صفحہ 25 26 


پھر امام شعرانی فرماتے ہیں میں نے اور میری بیوی نے اس بات کا تجربہ کیا تو شیخ کے قول کے مطابق ہی پایا (مفہوما) 


فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا بھی ایسا ہی قول موجود ہے. 


مختصر یہ کہ ہمسفر کی طرف سے ملنے والی اذیت ثواب اور بلندی درجات کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کا موقع بھی فراہم کرتی ہے.

ایک سچا واقعہ


ٹرین ابھی لاہور اسٹیشن پر ہی کھڑی تھی کہ سامنے والی سیٹوں پر ایک فیملی آکر بیٹھ گئی۔ ایک بوڑھی عورت جس کی گود میں ایک تین سال کا بچہ تھا، ایک جوان لڑکی جو دو سال کے بچے کو گود میں اٹھائے ہوئی تھی ایک جوان مرد جو شاید اس بوڑھی عوت کا بیٹا اور اس جوان لڑکی کا شوہر تھا۔ (بعد میں میرے اندازے کی تصدیق ہوگئی) ان کے ساتھ ایک چار پانچ سال کی چھوٹی بچی جس کی چمکدار آنکھیں بتا رہی تھی کہ وہ بہت شرارتی ہے۔ میں حسب معمول کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ بچے میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگ گئے اور انکی دادی ان کے ساتھ بیٹھ گئی ان کے ساتھ  وہ جوان لڑکی اور اس کا شوہر بیٹھ گیا ۔ بچے بہت پیارے تھے میں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تو تین سال کا بچہ میرے پاس آگیا تاکہ اسے کھڑکی میں سے پوری طرح باہر جھانکنے کا موقع مل سکے کیونکہ دوسری طرف اس کی پانچ سالہ بڑی بہن کھڑکی پر قبضہ جمائے بیٹھی تھی۔ 

ٹرین روانہ ہوئی تو میں باہر کے منظر دیکھنے میں مگن ہوگیا۔ پتوکی سے پہلے ہی ٹرین کسی وجہ سے شہر سے باہر رکی تو بہت سے خوانچہ فروش چیزیں بیچنے کے لیے ٹرین کے پاس آگئے۔اس آدمی نے کھڑکی میں سے چار بھٹے لیے اور اپنی بیوی ، دونوں بچوں کو ایک ایک دے کر چوتھا خود کھانے لگ گیا ۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ اس نے نہ تو اپنی والدہ سے کھانے کا پوچھا اور نہ اسے خرید کردیا۔ میں نے سوچا شاید وہ نہ کھاتی ہوں۔ ٹرین روانہ ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ایک جوس بیچنے والا آیا تو اس آدمی نے اسے روک کر پانچ جوس لیے۔ اور پھر پہلے کی طرح چاراپنی بیوی اور تین بچوں میں تقسیم کیے اور پانچواں خود پینے لگ گیا۔ اس کی والدہ اسکی طرف دیکھتی رہی لیکن نہ جانے کیوں اس نے اس دفعہ پھر والدہ کو نظر انداز کردیا۔ وہ بوڑھی عورت مایوس ہوکر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ چھوٹی بچی نے دادی کی طرف جوس کیا کہ امی میرا جوس پی لو تو عورت نے آنکھوں میں آنسو بھر کرآہستہ سے کہا کہ بیٹا تم پیو، مجھے لے کر دینا ہوتا تو تمہارے پاپا لے دیتے۔ 


یہ سب دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور میرا پارہ ایک دم چڑھ گیا۔ اس آدمی کو بچے کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر ہمارے ساتھ بیٹھی عورت نے کہا کہ یہ عمر کتنی اچھی ہے اور والدین بچوں کا کتنا خیال کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ اولاد جوان ہوکر ماں باپ کا خیال نہیں کرتی۔ اس پر اس آدمی نے کہا نہیں جی جو حلالی ہوگا وہ تو اپنے ماں باپ کا خیال ضرور کرے گااور کوئی بدبخت ہی ہوگا جو اپنے ماں باپ کا خیال نہیں کرے گا۔ اس کی یہ بات سن کر میری برداشت جواب دے گئی اور میں نے کہا بھائی صاحب ناراض نہ ہونا آپ صرف گفتار کے غازی لگ رہے ہیں ورنہ کردار سے تو مجھے آپ بھی بدبخت ہی لگے ہیں ۔ پہلے بھٹے لیتے ہوئے بھی آپ نے اپنی ماں کو نظر انداز کیا اور اب جوس لیتے وقت بھی آپ نے اپنی بیوی بچوں کو سامنے رکھا اپنی ماں کے لیے ایک جوس کا ڈبہ لینے کی تو توفیق نہیں ہوئی اور وہ بے چاری اپنے آنسو چھپانے کے لیے منہ دوسری طرف کرکے بیٹھی ہیں۔ میری بات سنتے ہی اس آدمی کا رنگ فق ہوگیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ اس کی ماں کہنے لگی کوئی بات نہیں اللہ سلامت رکھے میرے میاں کو جب تک وہ ہے مجھے کوئی پرواہ نہیں، شاید میرے بیٹے کو یاد نہیں رہا کہ میں بھی انکے ساتھ سفر کررہی ہوں۔ اس کے بعد باقی ایک گھنٹے کے سفر میں وہاں بالکل خاموشی چھائی رہی اور میں نے اس آدمی کا جھکا سر دوبارہ اٹھتا نہ دیکھا۔ 


ہم لوگ ماں کی عظمت پر تو بہت باتیں کرتے ہیں اور ماں باپ کا خیال بھی رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد بہت سے مرد حضرات کا رویہ اپنے ماں باپ سے بدل جاتا ہے اور اس کے لیے پہلی ترجیح اسکی بیوی اور بچے ہوجاتے ہیں ۔ والدین کی ساری محبت ، ساری شفقت اور ساری عمر کی ریاضت بھلا دی جاتی ہے۔ ہماری وہ روایات آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں جس میں والدین اپنے آخری وقت تک گھر کے سربراہ رہتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں والدین سے انکا مقام نہیں چھینا جاتا ۔ لیکن جیسے جیسے ہم ترقی کی منازل طے کررہے ہیں ویسے ویسے ہمارے ملک میں اولڈ ہاوسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا دی ہے اس شخص کو جو اپنے ماں باپ کی بڑھاپے میں خدمت کرکے جنت نہ کما سکے۔ کتنے بد بخت ہیں وہ لوگ جو اپنی جنت کو خود اپنے ہاتھوں سے اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتے ہیں ۔ اللہ ہمیمں ایسی ترقی سے بچائے 


اے اللہ جن کے والدین حیات ہیں ان پر اپنا رحم و کرم فرما اور جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں انکے ساتھ اچھائی والا معاملہ فرما آمین ثمہ


List