احمقانہ ھے درد بیاں کرنا
عقل ھے ضبط کی انتہا کرنا
بچپن میں جنوں بُھوتوں اور چُڑیلوں سے خوف آتا تھا پر جب سے ہوش سنبھال کر دُنیا دیکھی تو اندازہ ہوا انسان زیادہ بھیانک مخلوق ھے۔ آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ڈوبنے اور نکلنے والے سورج کا منظر تک دیکھ سکے ۔ وہ چاندنی راتوں کے حُسن سے نا آشنا ہوکر رہ گیا ھے ۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں زندگی ملٹن بھی ھے ۔زندگی صرف حاصل ہی نہیں ایثار بھی ھے ۔ہرن کا گوشت الگ حقیقت ھے چشمِ آ ھو الگ مقام ھے ۔زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں احساسِ پرواز بھی ھے ۔ زندگی صرف میں ہی نہیں زندگی وہ بھی ھے ۔ " تو" بھی ھے ۔زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں ۔ چہرے بھی ھیں مُتلاشی نگاہیں بھی ۔ زندگی مادہ ھی نہیں روح بھی ھے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ھی معراجِ محبت ھے۔
اماں کہتی تھیں ۔زندگی میں ڈپریشن اور توقل کے حوالے سے سب سے اچھی دعا سورة التوبہ کی آخری آیت ھے۔حَسۧبِیَ اللہُ لَااِلَہٰ اِلَّاھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ " کافی ھے مجھے اللہ ۔نہیں معبود سواۓ اُس کے اُسی پر میرا توکل ھے اور وہ رب ھے عرشِ عظیم کا ۔۔ جب دل سے ایک بار کہہ دیتے ھیں کہ کافی ھے مجھے اللہ ۔۔ ہاں مجھے اللہ کافی ھے تو روح کے اندر تک سکون تحلیل ہوتا ھے ۔پھر ہم کہتے ھیں کہ جو اتنے عظیم عرش کا ربّٰ ھے ۔جس نے پوری کائنات سنبھال رکھی ھے ۔ اُس عظیم زات پر میرا بھروسا ھے ۔جب سب سے زبردست ۔سب سے بہترین وکیل ہماری پُشت پر ھے تو پریشان کیوں ہوں صرف ربّٰ کو نہ بتائیں کہ میری بہت بڑی ھے پریشانی ۔ پریشانی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیں کہ میرا ربّٰ کتنا بڑا عظیم ربّٰ ھے ۔ انگریزوں کے دورِحکومت میں احمد دین ببے روزگاری سے مایوس ہو کر اللہ میاں کو خط لکھ بیٹھا ۔ کہ اللہ میاں میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو ۔میرے پاس تیس 30 روپے ھیں جو تُمہیں بھیج رہا ہوں ۔ مجھے اچھی سی مُلازمت دلوا دو بوجھ اُٹھا اُٹھا کر میری کمر دوہری ہوگئی ھے ۔ لفافے پر پتہ جناب اللہ میاں ۔مالکِ کائنات لکھ کر لیٹر بکس میں ڈال آیا۔چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو ۔ کائنات ۔ اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا ۔ اس کانام میاں محمد تھا خط کے زریعے اس نے احمد دین کو بُلایا تھا۔۔ وہ کائنات کے دفتر گیا جہاں اُسے مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا آخر رشوت کام آ ہی گئی ۔۔
کلمہ پڑھیا اُتوں اُتوں تے
گَل اندروں نہ میں جانی
پتھراں وچوں ہیرے لبھاں
اپنڑیں مٹی نہ میں چھانی
اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔
عقل ھے ضبط کی انتہا کرنا
بچپن میں جنوں بُھوتوں اور چُڑیلوں سے خوف آتا تھا پر جب سے ہوش سنبھال کر دُنیا دیکھی تو اندازہ ہوا انسان زیادہ بھیانک مخلوق ھے۔ آج کے انسان کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ڈوبنے اور نکلنے والے سورج کا منظر تک دیکھ سکے ۔ وہ چاندنی راتوں کے حُسن سے نا آشنا ہوکر رہ گیا ھے ۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں زندگی ملٹن بھی ھے ۔زندگی صرف حاصل ہی نہیں ایثار بھی ھے ۔ہرن کا گوشت الگ حقیقت ھے چشمِ آ ھو الگ مقام ھے ۔زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں احساسِ پرواز بھی ھے ۔ زندگی صرف میں ہی نہیں زندگی وہ بھی ھے ۔ " تو" بھی ھے ۔زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں ۔ چہرے بھی ھیں مُتلاشی نگاہیں بھی ۔ زندگی مادہ ھی نہیں روح بھی ھے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ھی معراجِ محبت ھے۔
اماں کہتی تھیں ۔زندگی میں ڈپریشن اور توقل کے حوالے سے سب سے اچھی دعا سورة التوبہ کی آخری آیت ھے۔حَسۧبِیَ اللہُ لَااِلَہٰ اِلَّاھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ " کافی ھے مجھے اللہ ۔نہیں معبود سواۓ اُس کے اُسی پر میرا توکل ھے اور وہ رب ھے عرشِ عظیم کا ۔۔ جب دل سے ایک بار کہہ دیتے ھیں کہ کافی ھے مجھے اللہ ۔۔ ہاں مجھے اللہ کافی ھے تو روح کے اندر تک سکون تحلیل ہوتا ھے ۔پھر ہم کہتے ھیں کہ جو اتنے عظیم عرش کا ربّٰ ھے ۔جس نے پوری کائنات سنبھال رکھی ھے ۔ اُس عظیم زات پر میرا بھروسا ھے ۔جب سب سے زبردست ۔سب سے بہترین وکیل ہماری پُشت پر ھے تو پریشان کیوں ہوں صرف ربّٰ کو نہ بتائیں کہ میری بہت بڑی ھے پریشانی ۔ پریشانی کو بھی اچھی طرح سمجھا دیں کہ میرا ربّٰ کتنا بڑا عظیم ربّٰ ھے ۔ انگریزوں کے دورِحکومت میں احمد دین ببے روزگاری سے مایوس ہو کر اللہ میاں کو خط لکھ بیٹھا ۔ کہ اللہ میاں میں سمجھتا ہوں تم بھی رشوت لے کر کام کرتے ہو ۔میرے پاس تیس 30 روپے ھیں جو تُمہیں بھیج رہا ہوں ۔ مجھے اچھی سی مُلازمت دلوا دو بوجھ اُٹھا اُٹھا کر میری کمر دوہری ہوگئی ھے ۔ لفافے پر پتہ جناب اللہ میاں ۔مالکِ کائنات لکھ کر لیٹر بکس میں ڈال آیا۔چند روز بعد احمد دین کو ایک خط ملا جو ۔ کائنات ۔ اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے تھا ۔ اس کانام میاں محمد تھا خط کے زریعے اس نے احمد دین کو بُلایا تھا۔۔ وہ کائنات کے دفتر گیا جہاں اُسے مترجم کی حیثیت سے سو روپیہ ماہوار پر رکھ لیا گیا۔ احمد دین نے سوچا آخر رشوت کام آ ہی گئی ۔۔
کلمہ پڑھیا اُتوں اُتوں تے
گَل اندروں نہ میں جانی
پتھراں وچوں ہیرے لبھاں
اپنڑیں مٹی نہ میں چھانی
اَلَّهُمَّ صَلِّ عَلَى ُمحَمَّدِ ُّوعَلَى اَلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ ابْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدُ مَجِيِداَلَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمّدِ ٌوعَلَى اَلِ مُحَمّدٍ كَمَابَارَكْتَ عَلَى اِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى اَلِ اِبْرَاهِيْمَم اِنَّكَ حَمِيُد مَّجِيد ۔
آپ بہت اچھا لکھتے ہو
ReplyDeleteآپ بہت اچھا لکھتے ہو
ReplyDelete